پاکستان میں آئندہ عام انتخابات بھی موروثی سیاست کے نرغے میں
22 جنوری 2024پاکستان کے عام انتخابات میں حصہ لینے والوں میں ملک کے روایتی اور با اثر سیاسی گھرانوں کی چھاپ ہمیشہ سے ہی بہت نمایاں رہی ہے۔ اب ایک امیدوار کے طور پر ان انتہائی مہنگے انتخابات میں سیاسی جماعتوں کے عام نظریاتی ورکروں کے لیے انتخابی سیاست میں آگے آنا اور بھی مشکل ہو گیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق اس مرتبہ بھی بیشتر بڑی سیاسی جماعتوں نے ان انتخابات میں حصہ لینے کے لیے اپنے رشتہ داروں یا انتہائی مالدار افراد کو پارٹی کارکنوں پر ترجیح دی ہے۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ روایتی گھرانوں کے افراد کے جیت کر پارلیمنٹ میں پہنچنے سے ''سٹیٹس کو‘‘ کو تقویت ملے گی اور عام آدمی کی فلاح کے لیے کوئی بڑی اور بنیادی تبدیلی آنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
پارٹی ٹکٹوں کی بندر بانٹ
پاکستان کی انتخابی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے سینئیر صحافی مقصود اعوان نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ موجودہ انتخابی امیدواروں کی فہرست میں موروثی سیاست کی مثالیں پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا، ''آپ صرف لاہور کو دیکھ لیں یہاں نواز شریف، شہباز شریف، مریم نواز اور حمزہ شہباز انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ شہباز شریف قصور سے اور نواز شریف مانسہرہ سے بھی الیکشن لڑ رہے ہیں۔ مریم بھی کئی حلقوں سے الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں۔ عابد شیر علی فیصل آبار سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ اگر صرف ایک فیملی دس سے زائد نشستوں پر الیکشن لڑے گی تو غریب کارکن کی باری کب آئے گی۔‘‘
موروثی سیاست زوروں پر
ایک رپورٹ کے مطابق صرف مسلم لیگ (ن ) نے پنجاب میں قومی و صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے لیے جن امیدواروں کا اعلان کیا ہے ان میں کوئی تین درجن کے قریب امیدوار ایسے ہیں، جو انتہائی قریبی خونی رشتے رکھتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) لاہور کے صدر سیف الملوک کھوکھر کو قومی اسمبلی اور ان کے بیٹے فیصل ایوب کو صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ جاری کیا گیا ہے۔ لاہور سے افضل کھوکھر قومی اسمبلی اور انکے بھتیجے عرفان شفیع کھوکھر (ن) لیگ کی ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ ڈیرہ غازی خان سے سابق وزیر اویس لغاری اور ان کے بیٹے عمار لغاری کو راجن پور سے قومی اسمبلی کا ٹکٹ ملا ہے۔ لاہور سے سابق وزیر خواجہ سعد رفیق قومی اور انکے بھائی سلمان رفیق صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑ رہے ہیں۔
بہاولپور سے اقبال چنڑ کو قومی اسمبلی اور انکے بیٹے ظہیر اقبال چنڑ کو صوبائی اسمبلی کی نشست کا ٹکٹ جاری کیا گیا ہے۔ وہاڑی سے بیگم تہمینہ دولتانہ اور ان کے صاحبزادے عرفان عقیل دولتانہ کو ٹکٹ جاری کیا گیا ہے۔ شیخوپورہ سے سابق وفاقی وزیر میاں جاوید لطیف قومی اسمبلی اور انکے بھائی میاں امجد لطیف صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑیں گے۔ فیصل آباد سے رانا ثناء اللہ خان کو قومی اور انکے داماد رانا احمد شہریار کو صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ جاری کیا گیا ہے۔
مقصود اعوان کے بقول یہی حال پاکستان پیپلز پارٹی کا ہے۔ آصف علی زرداری نواب شاہ کی قومی اسمبلی کی نشست کے لیے اور ان کے بیٹے اور چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری لاڑکانہ اور لاہور سے قومی اسمبلی کی سیٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں جبکہ آصف زرداری کی بہن عذار پیچوہو نواب شاہ اور فریال تالپور لاڑکانہ سے صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر امیدوار ہیں ، فریال تالپور کے شوہر میر منور تالپور میر پور خاص میں قومی اسمبلی کی نشست پر پیپلز پارٹی کے امیدوار ہیں۔
ادھر جنوبی پنجاب میں دریشک فیملی اپنے تین بچوں کو الیکشن میں اتارا ہے جبکہ مزاری خاندان کے چار افراد بھی الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ ڈی جی خان میں اویس لغاری اور ان کے صاحبزادے الیکشن میں ہیں ملتان میں شاہ محمود قریشی اپنی بیٹی مہر بانو اور بیٹے زین قریشی کو الیکشن لڑوا رہے ہیں۔
سابق وزیراعظم اور پیپلز پارٹی کے رہنما یوسف رضا گیلانی خود بھی الیکشن لڑ رہے ہیں اور ان کے بیٹے بھی میدان میں ہیں۔ جمعیت علما اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمان نے اپنے علاوہ اپنے دو بیٹوں کو الیکشن میں اتارا ہے۔ گجرات کی چوہدری فیملی بھی اپنے رشتہ داروں کے ساتھ انتخابات میں شریک ہے، چوہدری پرویز الہی اور ان کے بیٹے چوہدری مونس الہی کے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے پر پرویز الہی کی اہلیہ الیکشن لڑ رہی ہیں۔
اسی طرح سندھ میں گھوٹکی کا مہر خاندان، ٹھٹہ کی شیرازی فیملی، سکھر میں خورشید شاہ کا خاندان، خیرپور سے قائم علی شاہ کا خاندان، بدین سے ذوالفقار مرزا کا خاندان، بہاولپور سے طارق بشیر چیمہ اور قصور کے رانا خاندان نے بھی اپنے اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کو انتخابی میدان میں اتارا ہے۔
سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''پاکستان، جیسے ممالک جہاں ریاست لوگوں کے تحفظ اور ان کے حقوق کی حفاظت نہیں کر سکتی، وہاں لوگوں کو اپنے مسائل کے حل کے لیے کسی با اثر شخص کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی سے موروثی سیاست پروان چڑھتی ہے۔"
سیاسی جماعتوں میں جمہوریت کی کمی
ان کے خیال میں جب تک پاکستان کے معاشرے میں جمہوری کلچر نہیں آتا اور جب تک سیاسی جماعتیں اپنے اندر جمہوری اقدار کو پروان نہیں چڑھاتیں اس وقت تک سیاسی فیصلے بھی پارٹی سربراہوں کی پسند ناپسند سے ہی ہوں گے۔
سینئیر صحافی سجاد انور نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ با اثر روایتی خاندانوں میں بھی اب تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ جن خاندانوں نے اپنی سیاست کو 'انسٹیٹیوشنلائز‘ یا اداراہ جاتی کر لیا ہے وہ عوام میں باقی ہیں جیسے بھٹو فیملی، شریف فیملی، ولی خان فیملی، اچکزئی فیملی اور مینگل فیملی وغیرہ وغیر لیکن دوسری طرف نواب زادہ نصراللہ خان، مولانا شاہ احمد نورانی، غلام مٖصطفی جتوئی، سومرو اور ٹوانہ فیملیوں نے ایسا نہیں کیا اس لیے ان کا پاکستانی سیاست میں اثر کافی کم ہوگیا ہے۔
سجاد انور کے مطابق،''اب سیاسی جماعتیں اور ان کی سرگرمیاں بڑی حد تک شخصیت پرستی کے گرد گھومتی ہیں۔ یہاں لیڈر کی پسند ناپسند چلتی ہے اس لیے رشتہ دار اور سرمایہ فراہم کرنے والے با اثر لوگ ہی اوپر آتے ہیں۔ نعرے لگانے والا نظریاتی کارکن بہت پیچھے چلا گیا ہے۔‘‘