اس میں کانٹینٹ لکھنا، بلاگ لکھنا، مضمون نگاری، گرافک ڈیزائنگ، تراجم یا ویڈیوز وغیرہ بنانا یا ان کو ایڈیٹ کرنا شامل ہیں۔ اس شعبے میں کم پڑھے لکھے افراد کے لیے بھی مواقع ہیں، جیسا کہ ڈیٹا انٹری وغیرہ۔ یہ ایک ایسا ذریعہ معاش ہے، جو پاکستان کے نوجوانوں میں کافی مقبول ہو رہا ہے۔ اچھا انٹرنیٹ کنیکشن اور لیپ ٹام موجود ہو تو آپ کہیں سے بھی فری لانسنگ کر سکتے ہیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فری لانسگ کی سروسز میں بھی جدت آتی جا رہی ہے۔ جیسا کہ اب سوشل میڈیا کی پوسٹ بنانا بھی ایک کام کہلاتا ہے اور اس کے لیے باقاعدہ ادائیگی ہوتی ہے۔
ان سب میں شامل ایک اور کام، جو آج کل کافی مقبول ہے، وہ ہے اکیڈمک رائٹنگ کا اور اس میں فراڈ بھی سامنے آ رہے ہیں۔
اب یہ اکیڈمک رائیٹنگ ہوتی کیا ہے؟ جیسا کہ آپ لوگ جانتے ہیں کہ اب پڑھانے کا طریقہ کار سیلف لرننگ کی جانب مڑ چکا ہے۔ طلبا کو دوران تعلیم مختلف قسم کی اسائنمنٹس اور کرییٹو رائٹنگ کے ٹاسک دیے جاتے ہیں تاکہ طلبا کی ریسرچ اور تجزیے کی صلاحیت کو تیز کیا جا سکے۔ علمی زندگی میں درست فیصلہ کرنے میں یہ صلاحیت بہت کام آتی ہے۔
ساتھ ہی ساتھ اکیڈمک رائٹنگ میں ماسٹرز اور ایم فل یا پی ایچ ڈی کے مقالہ جات بھی شامل ہیں، جن پر اس ڈگری کے دیے جانے یا نہ دیے جانے کا انحصار ہوتا ہے۔ پاکستان میں تو اکثر یہ مقالہ جات یا اسائنمنٹس لکھوا کر ہی جمع کروائی جاتی ہیں، جس کو وقت کی بچت کا نام دیا جاتا ہے جبکہ باہر سے آنے والے ایسے آڈرز عموماﹰ ان لوگوں کے ہوتے ہیں، جو مشرق وسطیٰ یا ایشیا کے کم آمدن والے ممالک سے تعلیم کے حصول کے لیے بیرون ملک گئے ہوتے ہیں۔
ان کا زیادہ تر وقت ایکسٹرا جابز کرتے ہوئے گزرتا ہے اور وہ اپنے تعلیمی ادارے کی جانب سے ملنے والے ٹاسک پورے نہیں کر پاتے۔ اس لیے وہ زیادہ تر پاکستانی یا بھارتی فری لانسرز کو اپنے کام کے لیے ہائر کرتے ہیں۔ کیونکہ یہاں پیسے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں کافی کم ہے اور یہاں کے فری لانسرز کم وقت میں اچھا کام کر کے دیتے ہیں۔
میری ایک دوست وجیہہ ایک فری لانسر ہیں اور فری لانسگ کا کام عرصہ تین سال سے کر رہی ہیں۔ ان کا اصل کام بلاگ رائٹنگ کا ہے، جس سے وہ مناسب پیسے کما لیتی ہیں۔ حال ہی میں ان کے ای میل اکاؤنٹ پر اکیڈمک رائٹنگ کرنے والے فری لانسرز کی خالی نشتوں کے بارے میں میلز آنے لگیں۔ ان میں سے ایک جاب کے لیے انہوں نے اپلائی کر دیا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ عام حالات میں ایک لفظ کا، جو معاوضہ ملتا ہے، وہاں معاوضہ تین گنا تھا۔ جواب میں ان کو ایک وٹس ایپ گروپ کا لنک دیا گیا کہ اگر آپ واقعی ہمارے ساتھ کام کرنا چاہتی ہیں تو یہ گروپ جوائن کریں۔
اس گروپ میں تمام اکیڈمک رائیٹنگز کے اپ ڈیٹ آتے رہتے ہیں۔ وہاں لکھا ہوتا تھا کہ آپ اپنی پسند کے کام کا کوڈ ہمیں بھیجیں، ہم آپ کو کام بھیجیں گے۔
وجیہہ بتاتی ہیں کہ ان تمام ہدایات پر عمل کرنے کے بعد، جب انہوں نے مطلوبہ کوڈ ان کو بھیجا تو اس کپمنی نے رجسٹریشن کا کہا۔ وجیہہ نے رجسٹریشن کروانے کے لیے تھوڑی تصدیق چاہی تو ان کو کہا گیا کہ کمپنی ایف بی آر میں رجسٹر ہے، جس پر انہوں نے این ٹی این نمبر مانگا، جو ان کو نہیں دیا گیا۔ لیکن کام ملنے کی خواہش میں وجیہہ نے پھر بھی رجسٹریشن کے 5000 جمع کروا دیے۔ اس کے بعد وجیہہ نے کئی بار کام کا مطالبہ کیا مگر ان کو کام نہیں دیا گیا بلکہ ہر جگہ سے بلاک کر دیا گیا۔
اس پر انہوں نے اپنی ایک وکیل دوست، جو سائبر کرائم پر کام کر رہی تھیں سے رابطہ کیا اور ان کو تمام ثبوت مہیا کیے تاکہ ایف آئی اے میں درخواست دی جا سکے۔ اس دوران اس وٹس ایپ گروپ میں شامل کئی لوگوں سے رابطہ کیا گیا تو سب کی شکایت ایک ہی تھی کہ رجسٹریشن فیس لی گئی ہے اور کام نہیں دیا گیا بلکہ گروپ سے خارج کر دیا گیا ہے۔
یہ تو وہ ایک کیس ہے، جس میں کیا گیا فراڈ، افراد کے پڑھے لکھے ہونے کہ وجہ سے سامنے آ گیا۔ ایسی نہ جانے کتنی ہی ویب سائٹس اور فیس بک پیجز ہیں، جو اس طرح کے فراڈ میں ملوث ہیں اور پاکستان کی فری لانس مارکیٹ کا وقار خراب کر رہے ہیں۔ سائبر کرائم ایڈووکیٹ فرزانہ نذیر بھلر کے مطابق اس قسم کے فراڈ کو پکڑا تو جا سکتا ہے لیکن اس پر قانون واضح نہیں ہے، اس لیے مناسب سزا نہیں مل پاتی۔
اس بابت ہماری حکومت کو غور کرنا چاہیے کہ اگر ہم دنیا کی بڑی فری لانس مارکیٹس میں اپنا مقام بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں اس کے لیے واضح قوانین و ضوابط کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں فری لانسگ کے لیے رجسٹر ہونے والی کمپنیز کا ریکارڈ رکھا جائے تاکہ مستقبل میں نوجوان اس قسم کے فراڈ سے بچ سکیں۔
فری لانسنگ کی مارکیٹ دنیا میں تیزی سے ترقی کر رہی ہے اور پاکستانی نوجوان اس میں اپنا مقام پیدا کر سکتے ہیں۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔