پاکستان میں بیل دوڑ کے دلچسپ مقابلے
پاکستان کے متعدد علاقوں میں ہر سال باقاعدگی سے بیلوں کی دوڑ کے مقابلے منعقد کرائے جاتے ہیں۔ دیہات کی زندگی کو مزید خوبصورت بنا دینے والے یہ مقابلے دنیا کے سامنے پاکستان کی ایک بالکل مختلف تصویر پیش کرتے ہیں۔
پاکستانی صوبہ پنجاب کے علاقوں کوٹ فتح خان، رحیم یار خان اور کلر سیداں کے علاوہ ملک کے کئی دیگر حصوں میں بیلوں کی دوڑ کے سالانہ مقابلوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ یہ مقابلے دیکھنے کے لیے لوگ دور دراز کے خطوں سے سفر کرتے ہوئے متعلقہ علاقوں میں جمع ہوتے ہیں۔
یہ تصویر دارالحکومت اسلام آباد سے اسی کلومیٹر دور پنڈ سلطانی میں ہونے والے مقابلوں کی ہے۔ اس مرتبہ بھی ان مقابلوں میں ہزاروں افراد شریک ہوئے۔ دو بیلوں کو ایک ساتھ دوڑاتے ہوئے توازن قائم رکھنا ہوتا ہے، جو کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔
مقابلوں میں شریک ریسر دو بیلوں کے پیچھے ایک تختے پر کھڑا رہنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ دو بیلوں کو ایک لکڑی کے فریم کے ذریعے باندھا جاتا ہے۔ ریسر کو تختے پر کھڑا کھڑے فتح کی لکیر عبور کرنا ہوتی ہے۔
بیل تیز رفتاری سے دوڑتے ہیں اور اکثر اوقات زمین بھی ہموار نہیں ہوتی۔ اس کھیل میں شریک ہر کوئی منزل تک نہیں پہنچتا۔ بہت سے کھلاڑی راستے میں ہی گر جاتے ہیں۔ بعض اوقات کئی کھلاڑی زخمی بھی ہو جاتے ہیں۔ یہ مقابلے دلچسپ ہی نہیں خطرناک بھی ہوتے ہیں۔
ان مقابلوں میں شریک بیلوں کے ایک مالک دانش اکرم کا کہنا تھا کہ دیہی علاقوں میں بیل دوڑ ایک صدیوں پرانا روایتی کھیل ہے۔ کبڈی اور دیگر کھیلوں کی طرح یہ تفریح کا ایک بہترین ذریعہ بھی ہے۔ لوگ سال بھر ان مقابلوں کا انتظار کرتے ہیں۔
دانش اکرم کے مطابق پاکستان میں ماضی میں ہونے والے بم دھماکوں اور اس طرح کی دوسری وارداتوں کی وجہ سے ایسی سرگرمیاں پس منظر میں چلی گئی تھیں۔ لیکن اس طرح کے میلے اور مقابلے لوگوں کو کچھ دیر کے لیے روزمرہ مسائل سے دور لے جاتے ہیں۔
پنڈ سلطانی کی طرح اکثر دیہات میں متعلقہ گاؤں کے معتبر افراد ہی یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ ان مقابلوں کا انعقاد کب کیا جائے گا۔ عمومی طور پر یہ مقابلے سردیوں میں فصلوں کی کٹائی کے بعد منعقد کرائے جاتے ہیں تاکہ قریبی علاقوں کے کسانوں کو بھی مدعو کیا جا سکے اور اس دوران کھیت بھی خالی ہوتے ہیں۔
پنڈ سلطانی کے سردار آصف علی کے بقول ان مقابلوں کے لیے بیلوں کو سارا سال بہترین خوراک کھلائی جاتی ہے اور ان کی مالش بھی کی جاتی ہے تاکہ وہ صرف بہت طاقت ور ہی نہ ہوں بلکہ بہت خوبصورت بھی لگیں۔
سردار آصف علی کے مطابق یہ ایک ایسا شوق ہے، جس پر اچھی خاصی رقم خرچ ہوتی ہے۔ اچھی خوراک کے ساتھ ساتھ بھینس کا خالص دودھ بھی بیلوں کو پلایا جاتا ہے۔ ایک خاص ملازم ہوتا ہے جو بیل کی دیکھ بھال کرتا ہے۔
بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ دوڑ میں شریک بیل مجمعے کی طرف بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔ ایسے میں ہر کوئی اپنی جان بچانے کی فکر کرتا ہے اور بیل کے مالک کی کوشش ہوتی ہے کہ بپھرے ہوئے جانور کو جلد از جلد قابو کر لیا جائے اور کوئی شخص زخمی نہ ہو۔
ان مقابلوں میں جیتنے والوں کو مختلف انعامات دیے جاتے ہیں۔ ماضی میں پنجاب کے کئی علاقوں میں پہلے نمبر پر آنے والے بیل کے مالک کو انعام کے طور پر زمین یا پھر کوئی بھینس دی جاتی تھی۔ اب واشنگ مشین، موٹر سائیکل یا پھر ٹی وی جیسے انعامات دیے جاتے ہیں۔
پاکستان میں اس طرح کے تفریحی مقابلوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس سے نہ صرف مقامی افراد لطف اندوز ہوتے ہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی پاکستان کا ایک ایسا تشخص سامنے آ رہا ہے، جس سے دوسرے ممالک کے لوگ ناواقف ہیں۔