پاکستان میں تباہی کے بعد ماحولیاتی معاوضے کی مہم میں تیزی
10 اکتوبر 2022پاکستان میں حالیہ سیلاب سے متاثر ہونے والے لاکھوں افراد میں سے ایک راج النور بھی ہیں۔ اس 12 سالہ لڑکی کا تعلق پاکستان کے سیلاب میں سب سے زیادہ تباہی کا شکار ہونے والے صوبہ سندھ سے ہے۔ اس موسم گرما میں مون سون کی بارشوں کے بعد بڑے پیمانے پر آنے والے سیلاب کی وجہ سے راج النور کی زندگی کا ہر پہلو بری طرح متاثر ہوا۔ ان کا خاندانی گھر اور وہ اسکول، جس سے وہ محبت کرتی تھیں دونوں ہی تباہ ہو چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ جن دوستوں کے ساتھ پیدل چل کر وہ اسکول جاتی تھیں اور ان کے ساتھ کھیلتی تھیں، سیلاب نے ان دوستوں کی زندگیوں کو بھی بدل کر رکھ دیا اور وہ اب کہیں اور پناہ گزینوں کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
موسمیاتی تبدیلیوں سے ایسی تباہی کبھی نہیں دیکھی، یو این چیف
ماحولیاتی تبدیلیوں کے ذمہ دار
راج النور جو اب صوبہ سندھ کے ضلع دادو میں اپنے والدین اور چار بہن بھائیوں کے ساتھ ایک عارضی خیمے میں رہ رہی ہیں کا کہنا ہے، ''ہماری پوری دنیا زیر آب ہے اور کسی نے بھی ہماری مدد نہیں کی ہے۔‘‘دادو ضلع میں کپاس اور چاول کی فصلیں تقریباﹰ 100 فیصد تباہ ہو چکی ہیں۔ مقامی حکام کا کہنا ہے کہ اس کے نصف سے زیادہ پرائمری اور سیکنڈری اسکول مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔ پاکستان بھر کے مختلف قصبوں اور شہروں میں ہونے والے نقصان کی بھی یہی صورتحال ہے۔
اس تباہی سے 'آب و ہوا کے انصاف‘ سے متعلق بحث میں بھی تیزی آئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا آب و ہوا کے لیے مضر گیسوں کا اخراج کرنے والے امیر ممالک کو اس ماحولیاتی نقصان کا معاوضہ ادا کرنا ہوگا جس کا سامنا پاکستان جیسے غریب ممالک ہے۔
یہ ایک ایسا خیال ہے جسے ترقی یافتہ ممالک نے بار بار مسترد کیا ہے، لیکن پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک اگلے ماہ مصر میں منعقد ہونے والی آب و ہوا سے متعلق اقوام متحدہ کی بین الاقوامی کانفرنس ''کوپ 27‘‘ میں اس پر سنجیدگی سے تبادلہ خیال کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ پاکستان کئی طریقوں سے اس بحث میں شفافیت لاتا ہے۔ سائنسدانوں نے کہا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ آب و ہوا کی تبدیلی اس موسم گرما میں مون سون کی بارشوں میں اضافے کی وجہ بنی ہے۔ انہیں ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بارش معمول کی مقدار سے ساڑھے تین گنا زیادہ ہوئی اور اس کے نتیجے میں پاکستان کا تیسرا حصہ زیر آب ہے۔
ماحولیاتی تبدیلیاں: دس غیر محفوظ ترین ملکوں میں پاکستان بھی
تباہی کی داستان
حالیہ سیلاب کی وجہ سے پاکستان میں کم از کم 1300 افراد ہلاک اور 33 ملین متاثر ہوئے ہیں۔ پاکستان ماحول کے لیے مضر اخراجات میں عالی سطح پر صرف 0.8 فیصد کا ذمہ دار ہے۔ تاہم اب اسے 30 ارب ڈالر سے زائد کے نقصانات کا سامنا ہے، جو اس کی مجموی قومی پیداوار سے 10 فیصد زائد ہے۔ اسے 20 لاکھ مکمل یا جزوی تباہ شدہ گھروں، تقریباﹰ 24000 اسکولوں، صحت کی پانچ ہزار سہولیات کی مرمت یا انہیں تبدیل کرنا ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ تیرہ ہزارکلومیٹر سڑکیں، پل، ہوٹل، ڈیم اور دیگر مواصلاتی ڈھانچے بھی بہہ گئے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے گزشتہ ماہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر اپنی تقریر میں کہا تھا، '' بڑے ممالک میں صنعت کاری کی قیمت 33 لاکھ پاکستانی اپنی جانوں اور ذریعہ معاش کی شکل میں ادا کر رہے ہیں۔‘‘
پاکستان کو زر تلافی کی ادائیگی ممکن ؟
پاکستان کی موسمیاتی تبدیلی کی وزیر شیری رحمٰن کا کہنا ہے کہ امیر ممالک موسمیاتی آفات سے متاثرہ ممالک کو معاوضہ ادا کریں۔ تاہم ترقی یافتہ ممالک نے ایسی کسی بھی چیز سے انکار کر دیا ہے، جس سے تلافی کا کوئی پہلو نکلتا ہو۔ یہ ممالک اس خوف کا شکار ہیں کہ اگر انہوں نے ایسی کوئی تلافی کی تو دنیا بھر سے ان کے خلاف بڑے پیمانے پر آب و ہوا کے دعوؤں کے دروازے کھل جائیں گے۔
نیدرلینڈز کی لیڈن یونیورسٹی میں بین الاقوامی پبلک لاء کی اسسٹنٹ پروفیسر مارگیریتھا ویویرینکے سنگھ کے مطابق ''بڑی ریاستیں ذمہ داری کے بارے میں انتہائی فکرمند ہیں۔ وہ کب تک اپنی اس ذمہ داری سے پہلو تہی کر سکتے ہیں؟ وہ کسی نہ کسی موقع پر تصفیہ کرنا چاہتے ہیں کیونکہ یہ مسئلہ ختم ہونے والا نہیں ہے۔‘‘
ویورنکے سنگھ نے کہا کہ اس معاملے میں قانونی کارروائی کی ایک بنیاد موجود ہے۔ بین الاقوامی قانون کے مطابق ریاستوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ دوسری ریاستوں کے ماحول کو نقصان نہ پہنچائیں۔ خلاف ورزیاں تلافی کرنے کی ذمہ داری کو متحرک کرسکتی ہیں۔ اس ذمہ داری کے تحت وہ یا تو نقصان سے پہلے کی صورتحال بحال کرنے یا معاوضہ فراہم کرنے کی پابند ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے پاس دو آپشنز ہیں۔ پاکستان عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) جیسے اداروں کے ذریعے یہ ماحولیاتی تبدیلی کے لیے ذمہ دار ریاستوں کا پیچھا کر سکتا ہے۔ لیکن یہ راستہ چین اور امریکہ، جو گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج کرنے والے دنیا کے دو سب سے بڑے ممالک ہیں، کی جوابدہی نہیں کرتا کیونکہ وہ آئی سی جے کے دائرہ اختیار کو تسلیم نہیں کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان قومی عدالتوں میں حکومتوں یا فوسل ایندھن کی تاجرکمپنیوں کے خلاف مقدمات کی پیروی کر سکتا ہے۔
اس ضمن میں وہ تمباکو نوشی کی وجہ سے ہونے والے نقصان کے لیے تمباکو کمپنیوں کے خلاف کامیاب مقدمات کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ "آب و ہوا کی تبدیلی کی قانونی چارہ جوئی اپنے ابتدائی مراحل میں ہے۔ تمباکو کی قانونی چارہ جوئی کی ایک مثال ہے جسے دور کی بات سمجھا جاتا تھا ، لیکن یہ واقعی شروع ہو گئی۔ "
پاکستان میں تباہ کن سیلاب کے لیے مغرب ذمہ دار؟
اندرونی ذمہ داری
پاکستان کو زرِ تلافی کی ادائیگی کے معاملے کو یہ سوال پیچیدہ بناتا ہے کہ پاکستان کی اپنی پالیسیوں نے سیلاب کی تباہی کے اثرات کو کس حد تک بڑھایا ہے؟ آب و ہوا کی تبدیلی اور آفات کی ایک ماہر عائشہ صدیقی نے کہا کہ تباہی کی زیادہ تر ذمہ داری ُان پر عائد ہوتی ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں کا سبب بنتے ہیں، لیکن ان کے بقول پاکستان کی بھی'' ذمہ داری ہے۔‘‘
پاکستان نے 2017 ء میں سیلاب سے بچاؤ کے قومی منصوبے کی منظوری دی تھی لیکن اسے کبھی نافذ نہیں کیا گیا۔ عالمی بینک نے صوبہ بلوچستان میں سیلاب سے بچاؤ کے منصوبوں کے لیے 200 ملین ڈالر کی کریڈٹ لائن میں توسیع کی تھی لیکن اس پر عمل درآمد میں پاکستان کی عدم پیش رفت کی وجہ سے اسے معطل کر دیا گیا تھا۔ ان منصوبوں کو رواں ماہ مکمل کیا جانا تھا۔ صدیقی اور دیگر لوگ جن سب سے بڑے مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہیں وہ یہ ہیں: سیلابی علاقوں میں بلا روک ٹوک تعمیرات اور پاکستان کا دریائے سندھ کی وادی کے ساتھ ساتھ بڑے ڈیموں اور نکاسی آب کے نظام جیسے انجینئرنگ کے میگا منصوبوں انحصار ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ میگا پروجیکٹس سیلاب کے پانی کو بڑھا نے اور مزید تباہی کا سبب بنتے ہیں، جب کہ انہیں سیلاب کو کم سے کم نقصان پہنچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
ریلیف اور جلد بحالی کے پلان 2010 ء کا اجراء
پاکستان کی آب و ہوا کی تبدیلی سے نمٹنے کی پہلی حکمت عملی کے شریک مصنف اور پاکستان کے لیے اقوام متحدہ کی سیلاب سے نمٹنے کی حکمت عملی کے مرکزی مصنف دانش مصطفیٰ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں 2010 ء کے سیلاب کے بعد کوئی اصلاحات نافذ نہیں کی گئیں، جس میں تقریبا دو ہزار افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ انہوں نے قدرتی نکاسی آب کو روکنے والی رکاوٹوں کو دور کرنے اور سیلاب کے خطرے والے علاقوں میں گھروں کی تعمیر کو روکنے کی سفارش کی تھی۔
ش ر ⁄ ع ا (اے پی)