پاکستان میں توہین رسالت کے قانون کا مستقبل
23 نومبر 2010ایک طرف پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر نے آسیہ کی سزا کو صدر آصف زرداری سے معاف کرانے کا اعلان کر رکھا ہے جبکہ دوسری طرف پنجاب حکومت کے حکام کا کہنا ہے کہ گورنر اپنے طور پر ایسا کرنے کا کوئی اختیار نہیں رکھتے۔ اس صورت حال کے بعد ملک میں قانون توہین رسالت کے حوالے سے ایک بار پھر بحث کا آغاز ہو گیا ہے۔
پاکستان کے غیر مسلم حلقے قانون توہین رسالت کی منسوخی کا مطالبہ کر رہے ہیں جبکہ مذہبی جماعتوں کی طرف سے اس مطالبے کی شدید مخالفت کی جا رہی ہے۔
ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے ڈپٹی سکریٹری جنرل فرید احمد پراچہ نے اعتراف کیا کہ جس طرح ملک میں قتل کے جھوٹے پرچوں اور جھوٹی گواہیوں کی شکایات ملتی رہتی ہیں بالکل اسی طرح ہو سکتا ہے کہ قانون توہین رسالت کے بعض مقدمے حقائق پر مبنی نا ہوں۔ ان کے مطابق قانون توہین رسالت کے ناجائز استعمال کو روکنے کے لیئے موثر اقدامات ضروری ہیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس قانون کے ساتھ مسلمانوں کے جذبات وابستہ ہیں اس لئے اس قانون کی منسوخی برداشت نہیں کی جائے گی اور ایسی کسی بھی حرکت کو توہین رسالت کے مجرموں کو بچانے کی کوشش قرار دیا جائے گا۔
فرید پراچہ کے مطابق پاکستان میں آج تک اس قانون کے تحت کسی بھی غیر مسلم کوپھانسی نہیں دی گئی۔ان کے مطابق آج تک توہین رسالت کے حوالے سے سات سو اکسٹھ شکایات ملیں ان میں سے تین سو اکسٹھ پر مقدمات درج ہوئے۔ایک سو چار کیسز میں اپیل کی گئی، گیارہ کیسز میں سزا سنائی گئی جبکہ عمل ایک پر بھی نہیں ہوا۔
ادھر ممتاز مسیحی رہنما سیسل چودھری نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ اس قانون کی وجہ سے کئی معصوم مسیحیوں کو کئی کئی سال جیلوں میں گزارنا پڑے، بعض غیر مسلموں کو کسی مقدمے کے بغیر محض الزام کی وجہ سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ان کے بقول گوجرہ شانتی نگر،ٹوبہ ٹیک سنگھ اور سیالکوٹ سمیت کئی شہروں میں غیرمسلموں کے ساتھ بڑی زیادتی ہوئی۔ ان کے مطابق قانون توہین رسالت کی منسوخی ہی ان مسائل کا واحد حل ہے۔ تاہم سیسل چودھری کا ماننا ہے کہ عوامی ردعمل کی وجہ سے کوئی حکومت اس قانون کو ہاتھ لگانے کی جرات نہیں کرے گی۔ان کے خیال میں سیاسی جماعتیں اس قانون کو اپنے سیاسی مفادات کے لئے بھی استعمال کر رہی ہیں۔
رپورٹ: تنویر شہزاد لاہور
ادارت: کشور مصطفیٰ