پاکستان میں توہین رسالت کے مبینہ الزام میں نوعمر لڑکا گرفتار
2 فروری 2011خبر رساں ایجینسی اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے پولیس کے تفتیشی افسر قدرت شاہ لودھی نے بتایا کہ کراچی سے تعلق رکھنے والے سمی اللہ نام کے اس لڑکے نے امتحانات کے دوران توہین رسالت کے مرتکب کلمات تحریر کیے تھے جس کی اطلاع ممتحن نے پولیس کو دی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ نجی طور پر تعلیم حاصل کرنے والے 17 سالہ اس مسلم نوجوان نے امتحانی بورڈ سے اپنے اس فعل کی معافی بھی مانگی تھی تاہم اس کو رد کرتے ہوئے اس کے اس عمل کو پولیس میں رپورٹ کر دیا گیا۔
لودھی کے مطابق سمی کو پولیس نے کراچی کے علاقے نارتھ ناظم آباد سے 29 جنوری کو گرفتار کرتے ہوئے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا ہے۔
پولیس نے امتحانی پرچے میں تحریر ان کلمات کو سامنے لانے سے انکار کر دیا ہے۔ پولیس خائف ہے کہ ان کلمات کو دھرانے یا سامنے لانے سے وہ انہیں بھی توہین رسالت کے قانون کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار نہ دے دیا جائے۔
دوسری جانب انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ (HRW) نے گرفتار نوجوان کے خلاف بنایا گیا مقدمہ واپس لینے اور فوری طور پر اُس کی باحفاظت رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کے لیے بچوں کے حقوق پر تحقیق کرنے والی ایک سینئر اہلکار بیڈی شیفرڈ کا کہنا ہے، " جب توہین رسالت کے قانون کے غلط استعمال کی بات آتی ہے تو پاکستان نے اس معاملے میں عدم رواداری کا ایک معیار قائم کر دیا ہے لیکن ایک اسکول جانے والے لڑکے کو امتحانی پرچے پر کچھ تحریر کرنے پر جیل بھیج دینے کا اقدام سچ میں بہت ہولناک ہے۔" وہ مزید کہتی ہیں کہ اسکول کی انتظامیہ کی جانب سے اس معاملے کو اچھالنا ہی کچھ کم نہ کہ اب پولیس اور عدالتی حکام کی جانب سے اس نوجوان کو جیل بھیج دیا گیا۔
پاکستان میں حقوق انسانی کے علمبرداروں اور آزاد خیال سیاست دانوں کے مطابق ملک میں توہین رسالت کے مرتکبوں کے لیے سزائے موت کی زیادہ سے زیادہ سزا رکھنے والے اس قانون کو نہ صرف اکثر ذاتی دشمنیاں اور اختلافات کا بدلا لینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے بلکہ اس سے اسلامی شدت پسندی کے جذبات کو بھی حوصلہ افزائی ملتی ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان میں توہین رسالت کا جرم ثابت ہونے پر موت کی سزا پانے والے افراد اپیل کے زریعے اس سزا میں تخفیف یا تبدیلی بھی کروا سکتے ہیں۔
یہ کیس، توہین رسالت کے قانون میں اصلاحات متعارف کروانے کے حامی اور ملک کے آزاد خیال سیاستدانوں میں سے ایک تصور کیے جانے والے پنجاب کے گونر سلمان تاثیر کے قتل کے ایک ماہ بعد سامنے آیا ہے۔ان کے حفاظتی دستے کے ایک اہلکار نے گزشتہ ماہ توہین رسالت کے قانون کے حوالے سے خیالات کا اظہار کرنے کی پاداش میں انہیں قتل کر دیا تھا۔
رپورٹ: عنبرین فاطمہ
ادارت: کشور مصطفیٰ