پاکستان میں تھر کے ہندو، انتہائی محروم طبقہ
15 جولائی 2013اعداد و شمار کے مطابق اس علاقے میں آبادی کی اکثریت اسی برادری سے تعلق رکھتی ہے لیکن یہاں کے مسلمان زمیندار ہی یہاں کے حکمراں ہیں۔ نتیجہ یہ کہ ان لوگوں کے حالات زندگی پاکستان بننے سے لے کر اب تک بہتر ہوئے ہی نہیں۔
شروع شروع میں تو اونچی ذات کے ہندوؤں نے بھی صاف کہہ دیا تھا کہ وہ ان نچلی ذات والوں کو ہندو تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔ پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی کے پہلے صدر منڈل اسی نچلی ذات سے تھے اور ان کا محمد علی جناح کے گورنر جنرل منتخب ہونے پر مبارکباد کے پیغام میں یہی کہنا تھا کہ نچلی ذات کے ہندوؤں کو پاکستان سے بہت امیدیں ہیں۔ لیکن پھر جب جلد ہی یہ امیدیں ٹوٹ گئیں تو منڈل بھی پاکستان سے بھارت چلے گئے تھے۔
آج بھی ان لوگوں میں سے وہ لوگ جو طاقت رکھتے ہیں، ملک چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ پچھلے دنوں پاکستان سے ہجرت کرنے والے ہندوؤں کی تعداد میں جب اضافہ ہونے لگا تو حکومت کے لیے یہ بہت شرمندگی کی بات بن گئی تھی۔ لیکن اس سلسلے میں کوئی بھی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا کہ کسی طرح جانے والوں کو روکا جائے۔
تھر کے غریب لوگ البتہ ملک چھوڑ کر بھی نہیں جا سکتے۔ وہ تو عموما اپنے علاقوں سے بھی صرف کام کی تلاش میں کراچی تک آتے ہیں اور وہ بھی اگر ان کے زمیندار برا نہ مانیں تو۔ پچھلے انتخابات میں جب ان لوگوں نے اپنے زمیندار کو ہرانے کی کوشش کی تو بیلٹ بکس جلائے گئے، انتخابی عملے کو زد و کوب کیا گیا اور ہر وہ کوشش کی گئی کہ کسی طرح ان غریب لوگوں کا سیاسی عمل سامنے نہ آ سکے۔ تھر کی ایک نشست سرکاری طور پر تسلیم کی گئی کہ وہاں انتخابات شفاف نہیں ہو سکے تھے، لہٰذا دوبارہ انتخاب کرایا گیا۔
سونے پہ سہاگہ یہ کہ یہ ہندو تقریبا سبھی نچلی سماجی ذات سے ہیں اور پاکستان کا قانون ان کو ہندو نہیں بلکہ شیڈول کاسٹ کہتا ہے۔ ذات پات کی یہ تقسیم جہاں ان غریب ہندوؤں کو حقوق اور مراعات کی دوڑ میں پیچھے دھکیل دیتی ہے وہیں یہ اس علاقے کو پسماندہ رکھنے کا سبب بھی بنتی ہے۔
ہندو کونسل کے پنڈت شرما کہتے ہیں کہ ذات پات کی یہ تقسیم ابھی اگلے 25 سال تک مزید چلے گی۔ وہ کہتے ہیں کہ تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے یہ علاقے ترقی کر ہی نہیں سکتے۔
سیاسی کارکن منگلہ کہ کہنا ہے کہ اصل مسئلہ تعلیم کی کمی کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہے کہ جو لوگ ان غریبوں کی نمائندگی کرنے آتے ہیں، وہ یا تو ان کی ذات سے تعلق نہیں رکھتے یا پھر اتنے پیسے والے ہوتے ہیں کہ اپنے مفادات ہی دیکھتے رہ جاتے ہیں۔
پنڈت شرما جو ایک ہندو میرج بیورو چلاتے ہیں اور پنڈت ہونے کے باعث شادیاں کراتے بھی ہیں، کہتے ہیں کہ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ مختلف ذاتوں کو قریب لاسکیں لیکن دوسری ذات والے عموما اپنا پنڈت خود لاتے ہیں۔
منگلہ کہتی ہیں کہ ان لوگوں کے حالات برے ہونے کی وجہ ان پر ہونے والا ظلم تو ہے ہی، مثال کے طور پر لڑکیوں کو زبردستی مسلمان کر کے ان سے شادی کر لینا، لیکن ایسا بھی ہے کہ جب ذات برادری میں کوئی رشتہ ہی نہیں ہوتا تو یہ لڑکیاں خود ہی تنگ آکر مسلمانوں میں شادی کر لیتی ہیں۔
نچلی ذات سے نچلے طبقے کا یہ سفر پاکستان کے ہندوؤں کو بہت مشکل پڑ رہا ہے، جہاں ریاست نے اب صرف اقلیتوں کی نشستیں مخصوص کردی ہیں اور یوں یہ بھی ممکن نہیں رہا ہے کہ اقلیتوں کے مختلف طبقوں سے نمائندے آ سکیں۔ ان لوگوں کے اصل مسائل کی طرف توجہ نہ ہونے کی وجہ سے سیاسی جماعتیں عموما کوئی مربوط حکمت عملی نہیں بناتیں کہ یہ علاقے ترقی کے راستے پر آگے آ سکیں۔ ایسے حالات میں غربت، جہالت اور پسماندگی ہی ان شہریوں کی ذات بن جاتی ہے۔