وجہ اس کی آرٹ اور کلچر سے دوری ہے۔ پاکستان اور بھارت ایک ساتھ آزاد ملکوں کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر ابھرے تھے۔ بھارت میں 1950ء میں ہی مولانا ابوالکلام آزاد نے تین تھیٹر اکیڈمیاں قائم کیں۔ ایک ہی عشرے بعد ہندوستان میں یہ تینوں اکیڈمیاں نئے ٹیلنٹ کی آبیاری مستقل بنیادوں پر کرنے لگیں۔ ایسے اداروں کے لیے حکومت کی جانب سے فنڈز کی مسلسل ترسیل سے تھیٹر ہر اسٹیٹ میں مفت تفریح کا ذریعہ بنا۔
اس کے نتیجے میں انڈین معاشرے میں نا صرف ایک صحت مند مقابلے کی فضا پیدا ہوئی بلکہ لوگوں میں تھیٹر کی اہمیت اور افادیت کا تصور بھی بحال ہوا۔ انڈین فلم انڈسٹری کے منجھے ہوئے بیشتر اداکاروں نے شوبز کا آغاز ہی تھیٹر سے کیا۔ دنیا میں ہر جگہ فنکار خود کو تھیٹر ایکٹر کہلوانا قابل فخر سمجھتے ہیں۔
اس کے برعکس پاکستان میں جیسے فلم انڈسٹری کا زوال بتدریج دیکھنے میں آیا بلکل اُسی طرح سنجیدہ اور معیاری تھیٹر کی جگہ 'گھٹیا کمرشل تھیٹر‘ نے لے لی۔ پاکستان میں تھیٹر کو کبھی بھی سنجیدگی سے آرٹ کا درجہ نہیں دیا گیا۔
ابتدائی تھیٹر کا آغاز یونانی تہذیب میں پانچویں صدی عیسوی میں ہوا اور پھر دنیا کے کونے کونے میں یہ آرٹ پھیل گیا۔ تھیٹر ڈرامہ تین قسموں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ المیہ، طربیہ اور رزمیہ لیکن ہر دور میں تھیٹر کی کئی نئی اقسام اسٹیج پر پیش کی گئیں، جن میں میوزیکل تھیٹر کو بے حد پذیرائی ملی۔
پاکستان کے شہرکراچی اور لاہور میں متواتر جب کہ اسلام آباد میں کبھی کبھار تھیٹر سرگرمیاں ہوتی رہی ہیں۔ کراچی میں آرٹس کونسل ناپا بڑے پیمانے پر جبکہ وہیں دوسرے پرائیویٹ ادارے بھی چھوٹے پیمانے پر تھیٹر کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔
1982 میں کراچی اور لاہور میں ضیاء الحق کی آمریت میں مزاحمتی اور علامتی تھیٹر نے بہت اچھا کام کیا۔ ان میں دستک گروپ ایک اعلی معیار کا حامل تھیٹر گروپ تھا جس کو منصور سعید ( ثانیہ سعید کے والد) اور پی ٹی وی کے پہلے سربراہ اسلم اظہر نے قائم کیا تھا۔
دستک نے بریخت ، میکسم گورکی، چیخوف اور ابسن کے ڈراموں کو اردو میں ترجمہ کر کے جہاں سیاسی شعور بیدار کرنے کا بیڑا اٹھایا وہیں شیما کرمانی کا تھیٹر گروپ " تحریک نسواں " اور مدیحہ گوہر کے ” اجوکا” نے خواتین اور سماجی موضوعات کو اپنے ڈراموں کا موضوع بنایا۔
آمریت کے اس دور میں سرکاری اداروں میں ایسے سیاسی اور سماجی تھیٹر کرنے پر پابندی عائدتھیں۔ اس لئے مختلف غیر ملکی کلچرل سینٹر جیسے گوئٹے انسٹیٹیوٹ، برٹش کونسل اور پی اے سی سی ان تھیٹر گروپس کی جائے پناہ ہوتی تھیں۔
1985ء میں پنجاب لوک رہس گروپ نے پنجابی زبان میں تھیٹر کی بنیاد رکھی، جس میں پنجاب کی روایت اور کلچر کے علاوہ زبان کو فروغ دینے کا نصب العین بھی اپنایا۔
اسی دوران سندھ کی سندھیانی تحریک کے پلیٹ فارم سے بھی ایسے تھیٹر ڈراموں نے سندھ کے عوام میں ایک جوش اور ولولہ پیدا کیا اور خواتین کی تھیٹر کے ذریعے سیاسی حلقوں میں شمولیت بھی بڑھی۔
لاہور میں کوئی ڈیڑھ عشرہ قبل کنول کھوسٹ اور سلطان کھوسٹ نے ایک ڈرامہ گروپ ''اولو مو پولو‘‘بنایا، جو کہنے کو تو متوازی یا غیر کمرشل تھیٹر ہے لیکن اُس میں مزاحیہ رنگ نمایاں رکھا گیا، جو تماشائیوں میں کافی مقبول ہے۔
اسلام آباد اور راولپنڈی اس آرٹ کی ترویج میں بہت پیچھے ہیں۔ 2008ء میں شاہ شرابیل نے اپنے خوبصورت سیٹ، اداکاری اور ہدایت کاری سے جڑواں شہروں کے باسیوں کو ایک اچھی اور معیاری تفریح مہیا کی لیکن کئی سال سے ان کے انگلینڈ میں رہائش پذیر ہونے سے عوام ان کے تھیٹر سے محروم ہیں۔
اسلام آباد میں اسی طرز پر ''تھیٹر والے " کے سفیر اللہ خان اور ''تصویر خانہ " کے احمد حبیب بھی کچھ نا کچھ محدود وسائل میں اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ حال ہی میں سوانگ تھیٹر گروپ نے اس میدان میں قدم جمائے ہیں اور یہ گروپ ایک سال میں دو ڈرامے پیش کر چکا ہے۔
کراچی میں نئے تھیٹر ڈائریکٹر اور اداکار سنیل شنکر، فواد خان ، داور، ندا بٹ اور ثمینہ نذیر اچھا کام کر رہے ہیں۔ اگر کراچی آرٹس کونسل اور ناپا کو تھیٹر کا مرکز کہا جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ کراچی میں تھیٹر اسلام آباد اور راولپنڈی کی بہ نسبت زیادہ آزاد ہے۔ اس لیے بہت سے ایسے موضوعات، جو دارالحکومت اور راولپنڈی میں دکھانا ممنوع ہیں، وہ وہاں با آسانی دکھائے جاتے ہیں۔
ہمارے ملک میں تھیٹر کی زبوں حالی کی کئی وجوہات ہیں۔
کووڈ نے تھیٹر کی سرگرمیوں پر سب سے کڑی ضرب لگائی۔ تقریباً دو سال آرٹس کونسل کراچی کا انٹرنیشنل تھیٹر فیسٹیول منسوخ کرنا پڑا، جس میں اپنے ملک کے علاوہ دیگر ممالک کے بہترین تھیٹر گروپس آ کر اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے۔ اسی طرح لاہور اور اسلام آباد کی بھی تھیٹر سرگرمیوں کو کافی نقصان پہنچا۔
دوسری بڑی وجہ حکومت کی طرف سے تھیٹر کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ سندھ حکومت کراچی آرٹس کونسل اور دیگر اداروں کے لیے اچھا فنڈ مہیا کرتی ہے۔ لیکن پھر بھی تھیٹر ڈرامے کرنے کے لیے تھیٹر گروپس کو نا ریہرسل کے لیے جگہ اور نا ہی مفت اسٹیج استعمال کرنے کی سہولت مہیا کی جاتی ہے۔
بالکل اسی طرح اسلام آباد میں سینکڑوں اسٹیج ڈرامہ کرنے کے لیے ادارے تو موجود ہیں لیکن وہاں ویرانی کے ڈیرے پڑے رہتے ہیں۔ کیونکہ ان تھیٹر ہالز کے یومیہ کرایے اتنے زیادہ ہیں کہ وہ تھیٹر گروپس، جن کے پاس بجٹ محدود اور فنڈز کی کمی ہوتی ہے، اپنے ٹیلنٹ کو اپنے اندر ہی دفن کر دیتے ہیں۔
گزشتہ پانچ چھ سال کے عرصے میں مدیحہ گوہر اور لخت پاشا کی وفات کے بعد اجوکا اور لوک رہس تھیٹر بھی کافی مفلوج ہو کر رہ گئے ہیں۔
فلمی صنعت کے زوال کے بعد لاہور کے سینما گھر ویران ہوئے تو اُنہیں بنا سنوار کر تھیٹر کی شکل دے دی گئی۔ تماثیل، محفل، الحمرا وغیرہ ہالز میں تواتر سے مزاحیہ ڈرامے پیش کیے جانے لگے۔ فیصل آباد، گوجرانوالہ، مریدکے، قصور وغیرہ سے مجرہ اور تفریح کے شائقین مرد گاڑیاں بھر بھر کر ڈرامہ دیکھنے آتے تھے۔
کراچی میں عمر شریف ایسے کمرشل تھیٹر کے بانی تھے لیکن وہ بیہودگی میں اس کمرشل تھیٹر کا مقابلہ نہیں کر سکے۔ حالانکہ فلم کی بہ نسبت اس کا ٹکٹ چار گنا زیادہ ہوتا تھا۔
واہیات مجرے اور بیہودہ ڈائیلاگز کو ہماری نوجوان نسل کے ذہنوں میں اتنا انڈیلا گیا ہے کہ آج وہ معیاری اور موضوعاتی تھیٹر کی الف ب سے بھی واقف نہیں ہیں۔ ایسے ڈراموں کو وقت کے ساتھ ساتھ ریکارڈ بھی کیا جانے لگا۔ نتیجتاً سی ڈیز عام ہو گئیں، گلیوں محلوں کے سی ڈی چینلز پر ڈرامے چوبیس گھنٹے پیش کیے جانے لگے اور لوگوں کو تھیٹر جانے کی خواہش نہ رہی۔
اب اگر کوئی سنجیدہ اور معیاری تھیٹر گروپ بھی راولپنڈی آرٹس کونسل کا رخ کرے تو وہاں کی انتظامیہ میوزیکل یا مزاحیہ ڈرامہ میں خواتین کے رقص کرنے اور ملبوسات پر ایسی قدغنیں لگاتی ہے کہ ڈرامہ کرنے کی خواہش اپنی موت آپ مر جاتی ہے لیکن کمرشل تھیٹر کے لیے ان کی پالیسی بلکل الگ ہے۔
کمرشل تھیٹر کے زوال پر اداکاروں نے ٹیلی وژن چینلز کا رخ کیا اور تمام بڑے چینلز نے رات گیارہ سے بارہ بجے کے دوران ایک پھکڑ پن سے بھرپور مزاحیہ پروگرام پیش کرنا فرض بنا لیا لیکن اب یہ رجحان بھی زوال پذیر ہے۔
ایک المیہ کم از کم یکساں رہا کہ چاہے وہ کراچی ہو یا لاہور، اسلام آباد ہو یا راولپنڈی، معیاری تھیٹر کے اداروں میں ڈائریکٹر، پروڈیوسر اور تنظیمی ڈھانچے میں خواتین کو بری طرح نظر انداز کیا گیا ہے جبکہ دیکھا جائے تو خواتین کو اس میدان میں کافی آگے ہونا چاہیے تھا۔
کمرشل تھیٹر میں اسکرپٹ اور اداکاری کے علاوہ وہ ساری حرکات و سکنات ہوتی ہیں، جو فیملی کے ساتھ دیکھی نہیں جا سکتیں۔
اس لیے خواتین نے تھیٹر کا رخ کرنا چھوڑ دیا اور ایسے تھیٹر صرف مردوں کی آماجگاہ بن گئے۔
آج بھی نئی نسل میں کچھ ایسے نوجوان ہیں، جو نامسائد حالات کے باوجود اس آرٹ میں دلچسپی بھی رکھتے ہیں اور کچھ منفرد کام کر کے دکھانا بھی چاہتے ہیں۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ان کے پاس وسائل موجود نہیں۔ اس دم توڑتے آرٹ کو نئی زندگی صرف حکومت اور اس کے ادارے ہی دے سکتے ہیں۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔