پاکستان: پارتھینئم کی جڑی بوٹی زراعت کے لیے کتنی خطرناک ہے؟
18 ستمبر 2022پارتھینئم کو دنیا بھر میں ایک خطرناک ترین جڑی بوٹی سمجھا جاتا ہے، جو افریقہ، ایشیاء اور جنوبی پیسیفک کے تقریبا 48 ممالک میں ماحول، انسانی صحت، کھڑی فصلوں اور معیشت پر نا قابل تلافی اثرات مرتب کر چکی ہے۔
ماہرین نے نوٹ کیا ہے کہ پاکستان کے دیہی اور شہروں علاقوں میں یہ خطرناک جڑی بوٹی تیزی سے پھیل رہی ہے، جس سے مقامی افراد کی زندگیوں، ذریعہ معاش اور زراعت پر انتہائی مضر اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
سیلاب کے بعد موجودہ صورتحال میں پارتھینئم زراعت کے لیے کتنی خطرناک ہے؟
سینٹر فار ایگری کلچر اینڈ بائیو سائنس انٹرنیشنل (کیبی) پاکستان میں پارتھینئم سے متعلق آگاہی پھیلانے کے لپے مختلف منصوبوں پر کام کر رہا ہے۔ اس کے ریجنل فوکل پرسن فار پارتھینئم عمیر صفدر نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہپاکستانمیں پارتھینئم کے تیزی سے پھیلنے کا ایک اہم ذریعہ پانی ہے،''موجودہ صورتحال میں جب ملک کا ایک بڑا رقبہ سیلابی پانی میں گھرا ہوا ہے تو لا محالہ یہ جڑی بوٹی دیگر علاقوں تک مزید تیزی سے پھیلے گی، جہاں پہلے اس کی گروتھ زیادہ نہیں تھی۔‘‘
عمیر صفدر کے مطابق پارتھینئم کے تیزی سے پھیلنے کا اندازہ اس طرح بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ پارتھینئم کے ایک پودے میں 15 ہزار سے 20 ہزار تک بیج ہوتے ہیں۔ اگر یہ جڑی بوٹی نئے علاقوں میں زرعی زمین اور فصلوں تک پہنچ گئی تو مستقبل میں زرعی پیداوار مزید متاثر ہونے کا امکان ہے، جو سیلاب کی وجہ سے پہلے ہی تباہ حالی کا شکار ہے، ''اس کے ساتھ ہی یہ امر ہمارے لیے مزید تشویش ناک ہے کہ پاکستان میں پھولوں کے کاروبار میں اس کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ پارتھینئم کے نقصانات کو نظر انداز کر کے گلدستوں کی سجاوٹ میں اسے جپسوفیلا کی جگہ استعمال کیا جا رہا ہے کیونکہ یہ نسبتا سستا ہے۔‘‘
پارتھینئم کے کنٹرول کے لیے کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں؟
زرعی یونیورسٹی فیصل آباد پاکستان میں پارتھینئم کے پھیلاؤ کو کنٹرول کرنے کے لیے سینٹر فار بائیو سائنس اینڈ انٹرنیشنل کے ساتھ مسلسل متحرک ہے۔ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر اقرار احمد خان کے مطابق پارتھینئم اپنے بیجوں کی بھرپور پیداوار اور ہر طرح کے موسمی حالات کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ان کے بقول اس کے تدارک کے لیے اسے جڑ سے اکھاڑنے کے علاوہ ایک اور تکنیک بھی استعمال کی جا رہی ہے۔ ڈاکٹر اقرار نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''تنے کی سنڈی پارتھینئم کی قدرتی دشمن ہے، جو اس کے پھولوں پر انڈے دینے کے بعد اپنے لاروا کی افزائش کرتی ہے اور پارتھینئم کے تنے کو کھا کر اسے کھوکھلا کر دیتی ہے۔ یہ سنڈی پارتھینئم کو تلف کرنے کا ایک اہم قدرتی ذریعہ ہے۔‘‘
پارتھینئم کے لیے جدید ریموٹ سینسنگ تکنیک کا استعمال
عمیر صفدر نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ملک مختلف علاقوں میں پارتھینئم کے پھیلاؤ کے اعداد و شمار جمع کرنے کے لیے ان کا ادارہ جدید ریموٹ سینسنگ تکنیک کا استعمال کر رہا ہے تاکہ فصلوں پر اس کے مضر اثرات سے متعلق مکمل ڈیٹا حاصل کیا جا سکے، ''اس کے لیے ہم نے "پلانٹ وائز پلس" پروگرام کا آغاز کیا ہے، جس کے تحت ملک بھر میں آگاہی مہم چلائی جا رہی ہے۔ اس مقصد کے لیے سیمینارز، ٹریننگ پروگرام منعقد کرنے کے علاوہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے بھی بھرپور مدد لی جا رہی ہے۔‘‘
ان کے بقول ملک بھر کی زرعی یونیورسٹیاں، پاکستان ایگری کلچر ریسرچ کونسل اور حکومتی ادارے اس حوالے سے سینٹر فار ایگری کلچر اینڈ بائیو سائنس انٹرنیشنل کو مکمل مدد فراہم کر رہے ہیں۔
پارتھینئم کنٹرول پر پاکستان میں مزید کیا تحقیق ہو رہی ہے؟
عمیر صفدر نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ سینٹر فار ایگری کلچر اینڈ بائیو سائنس انٹرنیشنل (کیبی) نے حال ہی میں ایک قرنطینہ لیبارٹری بنائی ہے، جو پاکستان میں اپنی نوعیت کی واحد لیبارٹری ہے، ''ہمارا راولپنڈی سینٹر اس حوالے سے خاصا متحرک ہے اور یہ قرنطینہ لیبارٹری ملک بھر سے سائنسدانوں کو پارتھینئم کنٹرول سے متعلق تجربات و تحقیق کے لیے مکمل سہولیات فراہم کر رہی ہے، جس میں تنے کی سنڈی سے پارتھینئم کو تلف کرنا سر فہرست ہے‘‘
عمیر صفدر کے بقول، ''ہماری کوشش ہے تمام سٹیک ہولڈرز کو ایک پلیٹ فارم فراہم کیا جائے تاکہ مشترکہ تحقیق اور بحث و مباحثہ کے ذریعے پارتھینئم کنٹرول سے متعلق ایک نیشنل ایکشن کنٹرول پلان تیار کیا جا سکے۔ حال ہی ہم نے زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے شعبۂ انٹامولوجی کے تعاون سے "سٹم بورنگ ویول" سے متعلق ایک بین الااقوامی سیمینار بھی منعقد کیا ہے۔‘‘
عمیر صفدر کے مطابق کیبی ریجنل سینٹر اس وقت کسانوں میں پارتھینئم سے متعلق آگاہی پھیلانے کے لیے بھی مسلسل سر گرم ہے، ''اب تک ہم پنجاب کے 438 دیہاتوں میں تقریبا 10 ہزاروں کسانوں تک اس حوالے سے ناگزیر حفاظتی اقدامات سے متعلق معلومات فراہم کر چکے ہیں۔‘‘
پارتھینئم پاکستان میں کھڑی فصلوں کے بعد اب شہری علاقوں کے پارکس یا سڑک کنارے اگی گھاس پھوس میں بھی ڈیرے ڈال چکی ہے۔ اسلام آباد کے دو بڑے پارکوں میں اس کی گروتھ نوٹ کی گئی ہے جہاں روزانہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ جاگنگ یا تفریح کے لیے آتے ہیں۔