1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں جانوروں پر اتنا ظلم کیوں؟

16 مئی 2023

سنا ہے کہ ریچھ کی مادہ اپنے نومولودوں کی بڑی تندہی سے پرورش کرتی ہے۔ شکاری جب ریچھ کے بچوں کو جنگل سے اٹھانے جاتے ہیں تو سب سے پہلا وار ریچھنی پر کرتے ہیں۔ اسے جان سے مارے بغیر بچوں کو ہاتھ لگانا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔

https://p.dw.com/p/4RP0C
Pakistan Karachi |  Bloggerin DW Urdu Bushra Pasha
تصویر: privat

کبھی سوچا ہے کہ ڈولفن شو دیکھنے جانے کے لئے انسان ڈولفن کو کتنی تکلیف دیتے ہیں؟ پہلے ڈولفن کو گہرے پانیوں میں تاکا جاتا ہے۔ پھر اذیت ناک  طریقے سے  ڈولفنوں کے غول کے پیچھے کشتیاں دوڑائی جاتی ہیں۔ ان کے پیچھے بھاگ بھاگ کر ان کو تھکایا جاتا ہے حتی کہ ان میں سے ایک دو تھک ہار کر ادھ موئی ہو جاتی ہیں۔

 پھر ان کو اس  رسیوں کی باندھ کر کشتیوں میں گھسیٹا جاتا ہے اور خشکی  پر لا کر پانی کی  حوض میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد بہت سی مار پیٹ، فاقہ کشی اور دردناک مراحل سے گزر کر ایک ڈولفن ہمارے سامنے پانی میں ناچتی ہے۔ نہ جانے اسے دیکھ کر کسی کو کیا خوشی ملتی ہے؟

تاریخ ان بے زبانوں کی لرزہ خیز بے بسی کی داستانوں سے  چھلنی ہے۔ ان کے خلاف ہونے والے مظالم کی اکثر داستانیں تو منظرعام پر آنے سے پہلے ہی ماضی کی بھول بھلیوں میں گم ہو جاتی ہیں۔ کیا کیجیے؟ ان پر گزرنے والے مظالم  پر کان دھرنے کا کس کے پاس وقت ہے؟ کون سا انہوں نے پریس کلب کے باہر کھڑے ہو کر نعرے بازی کرنا ہے؟  نہ ہی کسی ٹی وی چینل پر آ کر شور مچانا ہے۔ اس لئے ان کا پرسان حال دگرگوں ہے۔ 

حال ہی کی بات ہے کہ میں نے ایک مشہور عمارت کے باہر سے ایک بلونگڑے کو اٹھایا، جس کی آنکھیں کسی نے صمد بانڈ لگا کر ہمیشہ کے لئے بند کر دیں تھیں۔ ڈاکٹر کی بہت کوششوں کے بعد جب اس کی آنکھیں کھلیں، اس وقت تک وہ اندھا ہو چکا تھا، اس کے جسم پر جا بجا چوٹ کے نشانات تھے۔

 بہت تگ و دو کے بعد بھی وہ زندگی کی بازی ہار ہی گیا۔ اسی طرح ایک دن دفتر جاتے وقت ایک اہم شاہراہ پر میری نظر ایک کتیا پر پڑی، جس کے بچے کو گاڑیاں بے دردی سے کچل کچل کر آگے بڑھ رہی تھیں اور وہ دم سادھے غم کے پہاڑ کے بوجھ تلے دبی یہ  قیامت خیز منظر بے بسی سے تک رہی تھی۔ یہ منظر میری آنکھوں میں ثبت ہو کر رہ گیا۔ کیا بے زبان ہونا اتنا بڑا گناہ ہے؟  افسوس اس بات کا بھی تھا کہ میں نے بھی سوائے ایک خاموش تماشائی بنے رہنے کے اور کچھ نہ کیا۔   

ایسے ہزاروں واقعات ہماری روزمرہ کی زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ حضرتِ انسان  جہاں بھی گئے  سوائے خود غرضی اور دوسری تمام مخلوقات کے لئے آزمائش کے کچھ نہ بنے۔ جہاں گئے ان بے زبانوں  کے لئے محض بربادی کے سامان ہی مہیا کرتے رہے۔

اس  عنوان پر لکھتے ہوئے میرا دل بھر آیا ہے۔ آج میں ان  بے زبانوں  کی آواز بننا چاہتی ہوں۔ آج میرا کل بنی نوع انسان سے سوال ہے کہ کیا ملتا ہے ہمیں انہیں تنگ کر کے؟ اگر میں  ایک کتا ہوں تو مجھے ناپاک و غلیظ بنا دیا جاتا ہے۔ محبت کے نام پر ٹھوکریں اور پتھر پڑتے ہیں۔ جس گلی میں ٹھہر جاؤں وہاں کے باسی مجھے  علاوہ گالیوں اور تشدد کے کچھ نہیں دیتے اور بالاخر  یا تو میں کسی گاڑی کے نیچے آ کر مرجاتا ہوں یا مجھے زہر دے کر مار دیا جاتا ہے۔ 

میری وفا داریاں کسی کو یاد نہیں رہتیں۔ اگر میں بلی ہوں اور اوپر سے میرا رنگ کالا ہے تو میں منحوس ہوں۔ مجھے کسی کے گھر سے کھانا نہیں ملے گا، مجھے کوئی پالنا نہیں چاہے گا۔ میرا کوئی بچہ خوبصورت لمبے بالوں والا پیدا ہو جائے تو انسان اس کو مجھ سے چھین کر لے جائیں گے  اور جب  وہ ننھی سے جان ماں کے بغیر بیمار ہو جائے گی تو اسے اٹھا کر کسی گلی  کے کونے میں سسک سسک کر مرنے کے لئے چھوڑ دیں گے۔ پھر کسی سردی کی رات جب میں موسم کی بے  رحمی سے بچنے کے لئے کسی گاڑی کے پہیے کے پاس سو رہی ہوں گی، تب اسی تلے روند دی جاؤں گی۔

اگر میں گدھا ہوں تو میں کچھ نہیں کہوں گا۔ بھوکا پیاسا مالک کا بھاری بھرکم بوجھ اٹھا کر  ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچاتا رہوں گا۔ کوئی بھی موسم ہو اور کتنا ہی کٹھن رستہ ہو، میں خاموشی سے کام کرتا ہوں۔ اس کے باوجود  لاتیں، چابک اور ڈنڈے  ہی میرا مقدر ہیں۔

ایسے ہی کسی دن کام کرتے کرتے زیادہ بوجھ  اٹھانے سے میری ٹانگ ٹوٹ جائے یا میں زیادہ زخمی ہو جاؤں  تو مالک مجھے بیچ رستے میں  چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔ پھر میرا مقدر یا تو کسی گاڑی سے ٹکرا کر مرنا ہوتا ہے، نہیں تو تکلیف اور بیماری ہی کافی ہے۔ 

اگر میں ایک جنگلی جانور ہوں تو مجھے جنگل سے زبردستی میرے خاندان اور ماحول سے  کوسوں دور لے جایا جاتا ہے۔ میں طاقت میں آپ سے زیادہ ہوتا ہوں تو مجھے کمزور بنانے کے لئے  دنوں تک بھوکا پیاسا رکھا جاتا ہے۔

میرے تیز دانت اور ناخن  جو قدرت نے مجھے میرے تحفظ کے لئے دیے ہوتے ہیں ان کو میرے جسم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کاٹ دیا جاتا ہے۔  مجھے بے دریغ مارا جاتا ہے۔ اس پر بھی بس نہیں ہوتی۔ اس کے بعد تمام عمر میرے حصے میں ایک چھوٹے سا پنجرا اور  تنہائی لکھ دی جاتی ہے۔ انسان پیسے دے کر میری بے بسی اور تنہائی دیکھنے آتے ہیں۔

میں کتنا لکھوں اور کس کس جانور کے حق کے لیے آواز اٹھاؤں؟ میرے الفاظ اب میرا ساتھ چھوڑنے لگے ہیں۔  لیکن انسانوں کی اس بے رحم دنیا میں پھر بھی یہ مظالم جاری و ساری رہیں گے۔ کیا اشرف المخلوقات کا رتبہ اسی لئے ہمیں ملا تھا؟  

جانور بھی تو ہماری طرح ذی روح ہیں، ان کے ساتھ بھی تکلیف، پریشانی، بیماری اسی طرح ہیں، جیسے ہمارے ساتھ ہیں۔ وہ بھی   خوشی، غمی، پیار، نفرت اور دیگر جذبات سے ہماری طرح ہی آراستہ ہیں۔ آج میرا سوال آپ سے اور اپنے آپ سے ہے۔ آخر ہمیں کب میسر ہوگا انسان ہونا؟

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔