پاکستان میں جنسی ہراسگی: ایک بیوہ جس نے اپنی جنگ خود لڑی
29 جنوری 2020شہناز (نام دانستہ طور پر بدل دیا گیا) بیوہ ہو جانے کے بعد شروع کے چار برسوں کو اپنے لیے کسی عذاب سے کم نہیں سمجھتیں۔ مگر اب وہ تلخ سماجی حقائق کا مقابلہ کرنا سیکھ چکی ہیں۔ وادی سوات سے تعلق رکھنے والی لیڈی ہیلتھ ورکر شہناز کو چار سال تک بہت مشکل حالات کا سامنا رہا۔ ان کے شوہر ٹیکسی ڈرائیور تھے اور اپنی محنت کے معاوضے سے گھر کا خرچہ پورا کرتے تھے۔ لیکن جب ان کا دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہو گیا، تو شہناز کے پاس کوئی ملازمت تلاش کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا تھا۔ وہ کہتی ہیں، ''مجھے کئی اعلیٰ افسروں کی منت سماجت اور سفارشوں کے بعد ایک بنیادی مرکز صحت میں ہیلتھ ورکر کی نوکری مل گئی۔ میں روزانہ دفتر جاتی، تو راستے میں بھی مجھے حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ لوگ نامناسب جملے کستے۔ مجھے ذہنی تکلیف ہوتی۔ مجھے دفتر میں بھی کئی ساتھی کارکنوں اور افسران کی جانب سے ہراساں کیاجاتا تھا۔‘‘
شہناز نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کے ساتھی کارکنوں میں سے کئی ملازمین انہیں موبائل فون پر غیر اخلاقی پیغامات بھیجتے اور کئی بار گفتگو میں بھی براہ راست طرح طرح کی پیشکشیں کی جاتیں، ''میں تقریباً چار سال تک اس عذاب میں مبتلا رہی۔ پھر ایک دن میں نے ہمت کی اور اپنے دفتر کے کارکنوں کا سامنا کیا۔ میں نے غصے میں انہیں گالیاں بھی دیں، جس کے بعد میرے لیے وہاں کے حالات کچھ بہتر بھی ہو گئے تھے۔‘‘ لیکن شہناز نے اپنے ہراساں کیے جانے کے خلاف ہراسگی کی روک تھام کے لیے موجود قانون کا استعمال کرتے ہوئے متعلقہ محتسب کو کوئی شکایت کیوں نہ کی؟ اس کے جواب میں انہوں نے کہا، ''تب مجھے علم ہی نہیں تھا کہ ایسا کوئی قانون بھی موجود ہے۔ اس قانون کے بارے میں تو مجھے اب پتہ چلا ہے۔ اب لیکن میرے لیے صورت حال ٹھیک ہے۔ تاہم اگر مجھے پھر ہراساں کیا گیا، تو میں اس قانون کا عملی استعمال ضرور کروں گی۔‘‘
مسئلہ عمومی سوچ کا ہے
شہناز کہتی ہیں کہ پاکستانی معاشرے میں گھر سے باہر کام کرنے والی عورتوں کے کردار پر زیادہ تر بڑی آسانی سے سوال اٹھا دیے جاتے ہیں۔ انہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور اکثر لوگ یہ سمجھنے کی کوشش کم ہی کرتے ہیں کہ کوئی خاتون اپنے گھر سے نکل کر کوئی ملازمت کس مجبوری کے باعث کر رہی ہوتی ہے۔
وہ کہتی ہیں، ''اب لیکن میں اپنے ارد گرد کے معاشرے کی اس سوچ کو اچھی طرح سمجھ گئی ہوں۔ میں جانتی ہوں کہ کم ظرف افراد کو کچھ سمجھانے کے لیے کس لہجے میں بات کرنا پڑتی ہے۔ اب میں خوف زدہ نہیں ہوتی اور اس بات کی پرواہ بھی نہیں کرتی کہ کوئی کیا کہہ رہا ہے یا کیا کہے گا۔‘‘
قومی سطح کے اعداد و شمار
سوات کی شہناز کی طرح پاکستان میں ہر روز ہزاروں دیگر خواتین کو بھی ان کی جائے روزگار یا عوامی جگہوں پر ہراساں کیا جاتا ہے۔ گزشتہ برس جہاں ملک بھر میں ایسے واقعات میں اضافہ ہوا، وہیں پر قدامت پسند پاکستانی معاشرے میں خواتین کے ساتھ ساتھ مردوں کو بھی ہراسگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں جنسی ہراسگی کی روک تھام کے نگران وفاقی محتسب کے دفتر کے مہیا کردہ اعداد و شمار کے مطابق صرف جنوری 2019ء سے اکتوبر2019ء تک ایسے 300 سے زیادہ واقعات میں پاکستانی شہریوں کو ہراساں کیا گیا۔ اسی طرح 2018ء میں پاکستان بھر میں ایسے 260، دو ہزار سترہ میں 90 اور 2016ء میں ساٹھ کے قریب ایسے واقعات رپورٹ ہوئے تھے۔
صوبے خیبر پختونخوا کی محتسب برائے انسداد جنسی ہراسگی کے مطابق ان کے دفتر کو اب تک کل 60 واقعات رپورٹ کیے گئے ہیں، جن میں سے 23 واقعات عملاﹰ متعلقہ قانون کے دائرے میں آتے ہیں۔ ان میں سے 22 واقعات کی شکایت خواتین نے کی جبکہ ایک واقعے میں ایک مرد شہری کو ہراساں کیا گیا۔ صوبائی محتسب کے مطابق ان واقعات میں سے چھ پر کارروائی مکمل ہو چکی ہے۔
صوبائی محتسب کا موقف
خیبر پختونخوا کی محتسب برائے انسداد جنسی ہراسگی رخشندہ ناز نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ کل 36 صوبائی محکموں میں تین تین افراد پر مشتمل ایک ایک انکوائری کمیٹی بنائی جا چکی ہے اور پشاور میں صوبائی حکومت اس معاملے میں محتسب کے دفتر سے مکمل تعاون کر رہی ہے۔ رخشندہ ناز نے کہا، ''پہلے خواتین کو ہم پر اعتماد نہیں تھا۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں میں اعتماد قائم ہوا ہے۔ ہمیں جس کسی کے خلاف بھی کوئی شکایت ملتی ہے، ہم اسے تین دن کے اندر اندر نوٹس بھیج دیتے ہیں۔‘‘
صوبائی محکموں میں قائم کردہ کمیٹیوں کے بارے میں رخشندہ ناز نے کہا کہ جنسی ہراسگی کے خلاف کمیٹیوں کے لیے ایسے ارکان کا انتخاب کیا جاتا ہے، جو بالکل غیرجانبدار ہوں اور جن میں معاملات کو پرکھنے کی صلاحیت بھی ہو، ''ہر کمیٹی کے تین ارکان ہوتے ہیں، ایک عورت اور دو مرد۔ یہ ارکان کسی بھی متعلقہ سرکاری ادارے کے سینئر اہلکار ہوتے ہیں۔ لیکن اگر کسی ادارے میں ایسے ارکان ضروری تعداد میں دستیاب نہ ہوں، تو اس ادارے سے باہر سے بھی کسی رکن کو نامزد کیا جا سکتا ہے۔‘‘
صوبائی محتسب نے مزید کہا کہ جن افراد کے خلاف ایسی شکایات موصول ہوتی ہیں، وہ اکثر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے ایسے کیسز کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں، جس کے بعد زیادہ تر شکایات واپس بھی لے لی جاتی ہیں۔ دوسری طرف یہ بات بھی اہم ہے کہ ملک بھر میں جنسی ہراسگی کے خلاف قانون کی نفاذ اور صوبائی سطح پر محتسبوں کے دفاتر کے قیام کے باوجود ملک میں جنسی ہراسگی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
بہت سی خواتین شکایات کرنے سے اب بھی گریزاں
سوات میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم خوئندو جرگہ کی چیئرپرسن تبسم عدنان کہتی ہیں کہ جنسی ہراسگی کے خلاف قانون منظور ہوا اور صوبائی محتسبوں کے دفاتر بھی بن گئے، لیکن خیبر پختونخوا میں خواتین اب بھی کسی کے خلاف شکایت درج کرانے سے کتراتی ہیں اور سمجھتی ہیں کہ ایسا کرنے سے ان کی بدنامی ہوگی۔ تبسم عدنان کے مطابق صوبے میں ہراسگی کے ہزاروں واقعات ہو سکتے ہیں، جو مختلف دفاتر اور عوامی مقامات پر پیش آتے ہیں، مگر ان کے بارے میں کوئی بات نہیں کرتا، ''ہمارے پاس بھی ایسے کیسز آتے رہتے ہیں۔ لیکن جب ہم انہیں قانونی شکل دینے کے لیے کارروائی شروع کرتے ہیں، تو متاثرہ خواتین اکثر اپنی شکایات واپس لے لیتی ہیں۔‘‘
تبسم عدنان کا کہنا ہے کہ جنسی ہراسگی اور اس کے خلاف موجود قانون کے حوالے سے زیادہ آگہی کی اشد ضرورت ہے تاکہ ہر کسی کو علم ہو کہ ایسا قانون بھی ہے، جس کے تحت خواتین کو چھیڑنے یا تنگ کرنے پر بھی سزائیں سنائی جا سکتی ہیں۔ ''ایسے واقعات میں اگر کسی ملزم کو سزا سنائی جائے اور اس کی باقاعدہ تشہیر بھی ہو، تو میرے خیال میں باقی لوگ بھی محتاط رہین گے۔‘‘
خیبر پختونخوا کی انسداد جنسی ہراسگی کی محتسب رخشندہ ناز کہتی ہیں کہ اس رجحان کے تدارک کے لیے انکوائری کمیٹیاں تقریباً ہر محکمے میں قائم کی جا چکی ہیں اور کالجوں، یونیورسٹیوں اور بڑے نجی دفاتر میں بھی ایسی کمیٹیاں قائم کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ اس کے علاوہ جنسی ہراسگی کے قانون اور محتسب کے دفتر سے متعلق زیادہ آگہی کے لیے سوشل میڈیا پر بھی اپ ڈیٹس دیے جاتے ہیں۔ انہوں نے خاص طور پر خواتین سے یہ اپیل بھی کی کہ وہ بوقت ضرورت ان کے دفتر سے اس ادارے کے فیس بک پیج کے ذریعے بھی رابطہ کر سکتی ہیں اور اس سلسلے میں کسی بھی متاثرہ شہری کو خاموش نہیں رہنا چاہیے۔