پاکستان میں جہادی کلچرکے لیےسعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی معاونت: وکی لیکس
22 مئی 2011خفيہ معلومات منظر عام پر لانے والی انٹرنيٹ ويب سائٹ وکی ليکس کی تازہ ترین رپورٹ سے یہ انکشاف ہوا ہے۔ وکی لیکس کی جاری کردہ نئی امریکی سفارتی کیبلزکے مطابق سالانہ ایک سو ملین ڈالر کی مدد سے خلیجی ریاستوں کی طرف سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں جہادیوں کو بھرتی کرنے کی مہم کی معاونت کی گئی۔ پنجاب میں جہادی نٹ ورک کی بھرپور پشت پناہی متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کرتا رہا ہے۔ اس بارے میں وکی لیکس انکشافات پر مبنی ایک تفصیلی رپورٹ پاکستانی روزنامے ڈان میں شایع ہوئی ہے۔
سال 2008 ء نومبر کے ماہ میں اُس وقت لاہور میں امریکی قونصل خانے میں متعینہ امریکی پرنسپل آفیسر برائن ہنٹ کی طرف سے جاری کردہ مراسلہ، پنجاب کے مختلف علاقوں میں اُن کے دوروں کے دوران اس بارے میں مقامی حکومت اورغیر سرکاری ذرائع کے ساتھ ہونے والی گفت و شنید پر مبنی ہے۔ مختلف ذرائع پر مبنی اس مراسلے سے پتہ چلا ہے کہ آٹھ سے بارہ سال کی درمیانی عمر کے بچوں کو جہادی تربیت دینے کے لیے پنجاب میں قائم کیے گئے نٹ ورکس، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سے آنے والی ایڈ کی مدد سے کام کر رہا تھھ۔ نیز یہ کہ تبلیغ کا کام کرنے والی اور اسلامی خیراتی تنظیموں کو ان عرب ممالک کی حکومتوں کی طرف سے براہ راست مالی امداد اور حمایت بھی حاصل تھی۔
1980ء کے عشرے میں سعودی عرب، امریکہ اور پاکستان نے مشترکہ طور پر افغانستان میں سوویت قبضے کے خاتمے کے لیے افغان مجاہدین کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔ تب ہی سے پاک افغان سرحد عبور کر کہ پاکستان کے شمال مغربی علاقوں میں آکر آباد ہونے والے عسکریت پسندوں کا گڑھ پاکستان کا یہ علاقہ بنتا چلا گیا اور اب اسے دنیا بھر سے آنے والے انتہاء پسند جہادیوں کی آماج گاہ سمجھا جانے لگا ہے۔ اُس وقت سےافغانستان اور پنجاب کے عسکریت پسند گروپوں کے مابین غیر معمولی روابط قائم ہوئے اور عسکریت پسندوں کے اہم ٹھکانوں پر ہونے والے ملٹری آپریشنز کے باوجود عسکریت پسند وں نے پاکستان کے اندر خود کُش بم حملوں اور دیگر دہشت پسندانہ کارروائیوں میں اضافہ کردیا۔
وکی لیکس کے مطابق پنجاب میں قائم جہادی نٹ ورکس وہاں کے عوام میں پائی جانے والی غربت کا مسلسل ناجائز فائدہ اٹھاتے رہے ہیں اور کم سن بچوں کے اذہان کو نظریہ جہاد کی طرف مائل کرنے اور انہیں تربیت فراہم کرنے کا کام انجام دے رہے ہیں۔ سُنی انتہا پسند نظریات کے حامل وہابیوں کے ملک سعودی عرب کے بارے میں ماہرین کا خیال ہے کہ اسی کی حکومت سخت گیر موقف رکھنے والے پاکستان کے چند مذہبی گروپوں، مدرسوں اور مذہبی درس گاہوں کو فنڈز فراہم کرتی ہے، جہاں کم سن بچوں اور نوجوانوں کو جہاد کے لیے ذہنی اور جسمانی طور پر تیار کیا جاتا ہے۔ اس رجحان کے سبب جنوبی ایشیا کے خطے میں امن و استحکام کو شدید خطرات کا سامنا ہے۔
وکی لیکس کی جاری کردہ اس امریکی سفارتی کیبلزکے مطابق ’ ان مدرسوں میں بچوں کا باہر کی دنیا سے رابطہ مکمل طور پر ختم کر دیا جاتا ہے اور انہیں فرقہ وارانہ انتہا پسندی کی طرف مائل کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کم سن بچوں کے ذہنوں میں غیر مسلموں، مغرب اورپاکستانی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف نفرت پیدا کی جاتی ہے۔
وکی لیکس کے ڈان میں شائع ہونے والے ان انکشافات میں اس امر پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے کہ متعدد بچوں والے غریب گھرانوں کو جہادی نٹ ورکس کس طرح استعمال کر رہے ہیں۔ کیبلز کے مطابق سعودی عرب کی پشت پناہی میں کام کرنے والی جہادی تنظیمیں سب سے زیادہ شوق سے آٹھ سے بارہ سال کی عمر کے بچوں کو بھرتی اوران کی تربیت کرتی ہیں۔ جہاں انہیں جہادی کلچر اور تشدد اپنانے کی ترغیب دلائی جاتی ہے۔ کیبلز میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی حکومتیں سالانہ فنڈ انہی مذہبی رہنماؤں کو دیتی ہیں جواس قسم کے مدرسوں اور مساجد کے قیام میں کامیاب رہتے ہیں۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ / خبر رساں ادارے
ادرات: عابد حسین