پاکستان میں خواتین کے حقوق کو یقینی بنانے کے لیے مثبت پیشرفت
14 دسمبر 2011سینیٹ کی طرف سے حقوق تحفظ نسواں سے متعلق دو الگ الگ بلوں کو منظور کرنے پرانسانی حقوق کے اداروں نے اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ ان کے بقول اس قانون سازی کی بدولت پاکستان جیسے قدامت پسند معاشرے میں لاکھوں خواتین کو تحفظ مل سکے گا۔ انسانی حقوق کےکارکنان نے اس قانون کی منظوری پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ خواتین کے تحفظ کے لیے یہ قوانین انتہائی اہم ثابت ہو ں گے تاہم ان کے بقول انہیں مزید سخت بنایا جا سکتا تھا۔
پاکستان میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے غیر سرکاری ادارے ’عورت فاؤنڈیشن‘ سے وابستہ نیئر شبانہ کیانی نے امریکی خبر رساں ادارے اے پی کو بتایا: ’پاکستان میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے یہ ایک بڑی کامیابی ہے۔‘ ان قوانین کی منظوری کے لیے لابنگ کرنے والی شبانہ نے مزید کہا: ’گراس روٹ کی سطح پران قوانین کے مؤثر اطلاق کے بغیر خاطر خواہ فائدہ حاصل نہیں ہوسکے گا۔‘
ان قوانین کے تحت عورت کو وراثت کے حق سے محروم کرنے والوں، کم عمری، جبری یا قرآن سے شادی کروانے والوں اور تیزاب سے جلائے جانے کے واقعات میں ملوث پانے والوں کو زیادہ سے زیادہ سزائیں سنائی جا سکیں گی۔ ان قوانین کے مطابق تیزاب سے جلائے جانے کے الزامات ثابت ہونے پر کم ازکم سزائے قید چودہ برس ہو گی جو عمر قید میں بھی تبدیل ہو سکے گی۔ ایسے مجرموں پر دس لاکھ روپے تک کا جرمانہ بھی عائد کیا جاسکے گا۔
زبردستی شادی کروانے والوں کو کم ازکم تین برس کی قید، خواتین کو وراثت سے محروم کرنے والوں کو کم ازکم پانچ برس کی قید جبکہ قران سے شادی کروانے والوں کوکم ازکم تین برس سزائے قید سنائی جا سکے گی۔ پیر کو سینیٹ کی جانب سے منظور کیے گئے دو مختلف قوانین کے مطابق یہ تمام جرائم ناقابل ضمانت ہوں گے۔
عورت فاؤنڈیشن کی طرف سے پیش کیے گئے ایک محتاط اندازے کے مطابق 2010ء کے دوران خواتین کو تیزاب سے جلانے، زبردستی کی شادیوں اور تشدد کے دیگر آٹھ ہزار واقعات رپورٹ ہوئے۔ انسانی حقوق کے کارکنان کے مطابق پاکستان میں خواتین کے خلاف ایسے مظالم ڈھائے جانے کی تاریخ طویل ہے اور اس حوالے سے قانون سازی کے ساتھ ساتھ عمومی رویے بدلنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں مردوں کی عمومی ذہنیت بدلنے میں ابھی مزید بیس تا تیس برس لگ جائیں گے۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: ندیم گِل