1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں میں 85 فیصد کمی

30 جنوری 2020

پاکستان میں گزشتہ ایک دہائی کے دوران امن و استحکام میں خاطر خواہ اضافہ ہوا اور دہشت گردانہ حملوں میں 85 فیصد کمی ہوئی۔

https://p.dw.com/p/3X2e1
Pakistan Lahore Anti-Terror-Einsatz
تصویر: Getty Images/AFP/A. Ali

پاکستانی تھنک ٹینکس کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں سال 2009ء کے دوران ہونے والے دہشت گردانہ واقعات کی تعداد 2000 کے قریب تھی۔ تاہم 2019ء میں ایسے واقعات کی تعداد کم ہو کر 250 رہی۔ دہشت گردانہ واقعات میں یہ بڑی تبدیلی پاکستانی حکومت کی طرف سے انسداد دہشت گردی کی جاری کوششیں ہیں۔

مگر پیرس میں قائم بین الاقوامی واچ ڈاگ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس یا ایف اے ٹی ایف نے گزشتہ برس اکتوبر میں کہا تھا کہ پاکستان دہشت گردوں کو فناسنگ کے عمل کو روکنے کے لیے مناسب اقدامات نہیں کر رہا۔ ایف اے ٹی ایف کا اگلا اجلاس اب آئندہ ماہ یعنی فروری میں ہونا ہے، جس میں یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ آیا پاکستان کو 'گرے لسٹ‘ یا اُس فہرست سے نکالا جائے یا نہیں جو ایسے ممالک کے ناموں پر مشتمل ہے جہاں دہشت گردی کے لیے فنانسنگ کا سلسلہ روکنے کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی معیشت کے لیے یہ فیصلہ انتہائی اہمیت کا حامل ہو گا۔

واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک ولسن سنٹر کے ایشیا پروگرام کے سربراہ مائیکل کوگلمین کے مطابق پاکستان میں ''دہشت گردانہ واقعات میں کافی زیادہ کمی جو ہم نے 2014ء کے بعد سے دیکھنا شروع کی، انتہائی زبردست ہے۔۔۔ مگر پاکستان ابھی بھی خطرات سے مکمل طور پر باہر نہیں نکلا۔‘‘

گزشتہ برس سے اب تک پاکستان نے ملک میں 66 کالعدم تنظیموں کو دہشت گرد یا دہشت گردی کے معاون گروپ قرار دیا۔ اس کے علاوہ پاکستان کے انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت 7600 افراد کے خلاف کارروائی کی گئی۔

مگر اس کے باوجود بھی شدت پسند گروپ پاکستان میں موجود ہیں۔ پاکستان کی کالعدم تنظیمیں جیسے لشکر طیبہ یا جیش محمد جس نے گزشتہ برس کشمیر میں بھارتی فوج پر ہوئے ایک خودکش کار بم حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی، ملک میں کالعدم تو قرار دے دی جاتی ہیں مگر وہ کسی اور نام سے ملک میں اپنا کام جاری رکھتی ہیں۔

'انسٹیٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز‘ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر عامر رانا کے بقول پاکستان میں دہشت گردی میں کمی ان طویل المدتی اقدامات کی عکاس ہے جو دہشت گردی اور اس کے ذمہ داروں کے خلاف کیے جا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کے پیچھے انٹیلیجنس، فوج کے انسداد دہشت گردی کے آپریشن اور دہشت گردی پر قابو پانے کی حکمت عملی کارفرما ہے جس کا مقصد دہشت گردی کے لیے فنڈنگ کرنے والوں کی شناخت اور اس کی روک تھام شامل ہے۔

ڈی ڈبلیو کے ایڈیٹرز ہر صبح اپنی تازہ ترین خبریں اور چنیدہ رپورٹس اپنے پڑھنے والوں کو بھیجتے ہیں۔ آپ بھی یہاں کلک کر کے یہ نیوز لیٹر موصول کر سکتے ہیں۔

ا ب ا / ع ا (ایسوسی ایٹڈ پریس)