پاکستان میں زرداری عدلیہ تصادم جاری
15 فروری 2010دونوں جماعتوں کے کارکنوں نے پنجاب اور سندھ کے مختلف شہروں میں ایک دوسرے کے قائدین کے پتلے جلائے اور مخالفانہ نعرے بازی کی۔ ادھر وکلاء تنظیموں، سول سوسائٹی اور اپوزیشن کے مخالفت کے باوجود حکومت ایوان صدر سے 13 فروری کو جاری کئے گئے ججوں کی تعیناتی کے حکم نامے کی حمایت بدستور جاری رکھے ہوئے ہے۔
وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ کا کہنا ہے کہ حکومت سپریم کورٹ میں ججوں کی تعیناتی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران اپنے فیصلے کا دفاع کرے گی۔ پیر کے روز ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراطلاعات نے مسلم لیگ نواز کے بعض رہنماﺅں کو سیاسی کشیدگی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا:” کچھ لوگوں نے پیپلز پارٹی کے ساتھ اپنی ذاتی نفرت کو قابو میں رکھا ہے لیکن کچھ دوست ایسے بھی ہیں، جو یہ نفرت کنٹرول نہیں کر پا رہے اور ان میں قائد حزب اختلاف سب سے بڑی شخصیت ہیں، وہ پیپلز پارٹی کے ساتھ مسلم لیگ نواز کا یا پاکستان کے اندر مفاہمانہ سیاست کا ماحول نہیں دیکھنا چاہتے۔“
دوسری جانب بعض آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت ججوں کی تعیناتی کے معاملے پر نہ صرف آئینی پہلوﺅں کو نظرانداز کر رہی ہے بلکہ اس حوالے سے عوامی آراءکا احترام بھی نہیں کیا جا رہا۔ اس حوالے سے سپریم کورٹ کے سابق جج وجیہہ الدین احمد کہتے ہیں:”ایوان اقتدار میں وہ بیٹھے لوگ ہیں، جن کو پاکستانی قوم اپنے کندھوں پر بٹھا کر ایوان اقتدار تک لے کر گئی اور انہیں وہاں بٹھایا لیکن بدقسمتی سے انہوں نے اپنے آپ کو ان عہدوں کے برابر نہیں سمجھا اور نہ انہوں نے اپنی ذمہ داریوں کو عوامی توقعات کے مطابق نبھانے کوشش کی ہے۔“
قابل ذکر امر یہ ہے کہ ماضی کی عدلیہ بحالی تحریک کے برعکس اس دفعہ وکلاء بھی دو واضح دھڑوں میں منقسم دکھائی دیتے ہیں۔ اسی سبب پیر کے روز احتجاج کے دوران ایک جانب چیف جسٹس کے حق میں جبکہ دوسری جانب صدر آصف علی زرداری کی حمایت میں نعرے بازی بھی کی جاتی رہی۔ البتہ عدلیہ بحالی میں سرگرم کردار ادا کرنے والے وکیل رہنما اور راولپنڈی بار کے جنرل سیکرٹری شہزاد گھیبا نے وکلاء میں تقسیم کے تاثر کومسترد کرتے ہوئے حکومت کے خلاف تحریک جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا:” اگر حکومت ججوں کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن واپس نہیں لیتی تو ہمارا احتجاج جاری رہے گا اور نوٹیفیکیشن واپس لے بھی لیا جاتا ہے تو بھی ہماری تحریک جاری و ساری رہے گی کیونکہ اگر سپریم کورٹ کے فیصلوں پر من و عن عملدرآمد نہیں کیا جاتا ،سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور متعلقہ چیف جسٹس صاحبان کی سفارشات پر عملدرآمد نہیں کیا جاتا اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے تو اس صورت میں عدلیہ کی آزادی میں رکاوٹ بننے والے ہر شخص کے خلاف ہمارا احتجاج اور تحریک جاری رہے گی۔‘‘
رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد
ادارت: امجد علی