1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں سری لنکا جیسی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے، عمران خان

3 جنوری 2023

پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ اور سابق وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان کا اقتصادی بحران ’بہت سنگین‘ صورت اختیار کر گیا ہے اور اب صرف قرضوں پر انحصار کر کے ملک کو نہیں بچایا جا سکتا۔

https://p.dw.com/p/4LhAi
عمران خان نے کہا ہے کہ اگر مہنگائی کی لہر کو نہ روکا گیا تو پاکستان میں سری لنکا جیسا انتشار پیدا ہو سکتا ہے
عمران خان نے کہا ہے کہ اگر مہنگائی کی لہر کو نہ روکا گیا تو پاکستان میں سری لنکا جیسا انتشار پیدا ہو سکتا ہےتصویر: Tanvir Shahzad/DW

عمران خان نے کہا ہے کہ اگر مہنگائی کی لہر کو نہ روکا گیا تو پاکستان میں سری لنکا جیسا انتشار پیدا ہو سکتا ہے۔ منگل کے روز لاہور میں پی ٹی آئی کی طرف سے ملکی معیشت کے حوالے سے جاری کیے جانے والے وائٹ پیپر کے موقع پر منعقدہ ایک بڑے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ''اس بحران سے نکلنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ ملک میں قانون کی حکمرانی کو یقینی بنا کر نئے منصفانہ انتخابات کی طرف بڑھا جائے‘‘۔

تحریک انصاف کی طرف سے وائٹ پیپر جاری

 اس تقریب میں ملک بھر سے آئے ہوئے اقتصادی ماہرین کی موجودگی میں پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے ملک کی موجودہ اقتصادی صورتحال کے حوالے سے ایک وائٹ پیپر جاری کیا گیا ہے۔

اس موقع پر عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان قرضوں پر انحصار کر کے ''زندہ‘‘ نہیں رہ سکتا۔ ان کے مطابق موجودہ حکومت کی پالیسیوں نے آج ملک کو، جس موڑ پر لا کھڑا کیا ہے، اس میں اگر ملک آئی ایم ایف کی سخت شرائط مانتا ہے تو اس سے عوام کے لئے بہت مشکل صورت حال پیدا ہو جائے گی اور اگر اس راستے پر نہیں جایا جاتا تو پھر ڈیفالٹ کی صورت میں اور بھی زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

 ان کے بقول یہ ایک حقیقت ہے کہ معیشت کا سیاست سے گہرا تعلق ہوتا ہے اور دنیا میں وہی ملک ترقی کرتے ہیں، جہاں قانون کی حکمرانی ہوتی ہے اور کرپشن کو روکا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اپنے آپ کو ''ہر فن مولا سمجھنے والے‘‘ سابق آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے ان کو کہا کہ آپ احتساب کو بھول جائیں اور ملکی معیشت پر فوکس کریں۔

عمران خان نے پی ڈی ایم کی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اپنے دور اقتدار کی کامیابیوں کا تفصیل سے ذکر کیا۔ ان کے بقول ملک کو اقتصادی بحران سے نکلنے کے لیے عوامی حمایت کی حامل ایسی مضبوط حکومت کی ضرورت ہے، جس پر لوگوں کو اعتماد ہو اور وہ مشکل فیصلے لے سکے۔

نئے انتخابات اور معیشت

عمران خان نے تجویز پیش کی کہ الیکشن کے بعد برسر اقتدار آنے والی حکومت معاشی اصلاحات کرے، خسارے میں چلنے والے اداروں سے جان چھڑائے اور ایکسپورٹرز کے مسائل حل کرے، قرضوں کو ری شیڈول کروائے، سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کر کے بیرون ملک سے سرمایہ کاری لائے، کاروباری آسانیاں پیدا کرے، اسپیشل اکنامک زونز کو فعال بنائے اور سیاحت کے شعبے کو ترقی دے تو تب جا کر موجودہ بحران سے نکلا جا سکے گا۔

ان کا کہنا تھا، ''دو خاندان کبھی بھی ملک کی دیرپا ترقی کے بارے میں نہیں سوچ سکتے‘‘۔

پی ٹی آئی کے موجودہ حکومت پر الزامات

پی ٹی آئی کی طرف سے جاری کیے جانے والے وائٹ پیپر میں کہا گیا ہے کہ پی ڈی ایم کی حکومت کے دوران پیداواری گروتھ منفی ہو گئی، مہنگائی اور بیروزگاری بڑھ گئی، ڈیفالٹ کا خطرہ بڑھ گیا، زرمبادلہ کے ذخائر، برآمدات اور بیرون ملک سے آنے والی رقوم میں کمی ہو گئی۔ روپے کی قدر گھٹ گئی، ملکی ریٹنگ نیچے آ گئی اور آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات غیر یقینی صورتحال کا شکار ہو گئے۔

وائٹ پیپر میں پی ڈی ایم کی حکومت کے مالی سال کے پہلے پانچ مہینوں کا پچھلے سال کے پی ٹی آئی کے دور کے اسی دورانیئے  کے اقتصادی اعشاریوں کا موازنہ کرتے ہوئے موجودہ حکومت کی ناکامیوں کا دعوی کیا گیا۔

کیا موجودہ اسٹیبلشمنٹ عمران خان کے خلاف ہے؟

وائیٹ پیپر میں کہا گیا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط ماننے یا نہ ماننے کی صورت میں ملک میں مہنگائی، بے روزگاری اور غربت میں ایسا اضافہ ہو گا، جو کہ ملکی تاریخ کا بدترین اضافہ ہو گا۔ وائیٹ پیپر میں کہا گیا کہ بڑا سوال یہ ہے کہ جب ایسا نہ کرنے کا مشورہ بھی دیا گیا تھا تو پھر بھی حکومت کی تبدیلی کیوں کی گئی؟

وائٹ پیپر میں کتنی سچائی؟

پاکستان کے اقتصادی ماہر خالد محمود رسول نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ سیاسی جماعتوں کی طرف سے پیش کیے جانے والے ایسے وائٹ پیپرز ان کے بیانیے کو تقویت دینے اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ والے حقائق لیے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان کے بقول پی ٹی آئی کی طرف سے ساری بری اقتصادی حالت کی ذمہ داری پی ڈی ایم پر ڈالنا مناسب نہیں اس بحران میں تیس سے چالیس فی صد حصہ خود تحریک انصاف کا بھی ہے، جس نے اپنے دور اقتدار میں آئی ایم ایف کی شرائط کو توڑا۔

تحریک انصاف کا قصور کتنا ہے؟

خالد محمود رسول کے مطابق عمران خان حکومت نے اقتصادی حقائق سے چشم پوشی کرتے ہوئے تیل کی قیمتوں میں اضافے کو روکا اور ملکی تاریخ کے بڑے قرضے لیے، ''دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ مفتاح اسماعیل نے، جو مشکل فیصلے کیے تھے اور اسحاق ڈار نے سیاسی ضرورتوں کے لیے، جو فیصلے کیے، اس صورتحال نے اقتصادی بحران کی شدت کو اور بھی بڑھا دیا ہے‘‘۔

خالد رسول کہتے ہیں کہ پاکستان کے معاشی بحران کو آئسولیشن میں دیکھنا مناسب نہیں ہے۔ دنیا میں کورونا کی وجہ سے ڈسٹرب ہونے والی سپلائی چین کی صورتحال، یوکرین کی جنگ اور دیگر عالمی واقعات کا بھی ملکی معیشت پر اثر پڑا ہے، ''سیاسی جماعتوں کی پوائنٹ اسکورنگ ایک طرف لیکن ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ملکی معیشت کو بحران سے نکالنے کے لیے سیاسی جماعتوں، اسٹیبلشمنٹ، عدالتوں اور میڈیا سمیت سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ بنیادی معاشی اصلاحات کے بغیر آگے نہیں بڑھا جا سکتا‘‘۔

ایک اور اقتصادی ماہر منصور احمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ صرف اپنی مرضی کے چند مہینوں کا موازنہ کر کے کوئی فیصلہ صادر کرنا درست نہیں ہے۔ اگر میاں نواز شریف کی حکومت اور عمران خان کی حکومت دونوں کے مکمل ادوار کا منصفانہ جائزہ لیا جائے تو دونوں کی اپنی اپنی ناکامیاں اور کامیابیاں ہیں۔

ان کے خیال میںنواز شریف حکومت میں مجموعی گروتھ بہتر تھی، قرضے کم تھے اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ سی پیک پراجیکٹس کی وجہ سے بڑھا تھا جبکہ عمران خان اپنے دور میں نوکریوں اور گھروں کے حوالے سے کئے جانے والے کئی وعدے پورے نہیں کر سکے تھے۔