پاکستان میں سیاسی سرگرمیاں ٹی وی شوز تک محدود
19 اپریل 2013انتخابات کا نام سنتے ہی سياسی جماعتوں کے نعروں موسيقی سے بھرپور کانسرٹ نما جلسوں، رنگ برنگے جھنڈوں سے سجے، بيان بازی سے مزين مذاکرے ذہن ميں آتے ہيں ليکن اب جب پاکستان ميں عام انتخابات کے دن انگليوں پر گنے جاسکتے ہيں اس کے باوجود يہ دن اليکشن روايتی گہما گہمی سے عاری دکھائی دیتے ہيں۔
صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی ميں بھی انتخابي مہم ميں وہ جوش و خروش نظر نہيں آرہا جو کراچی شہر کا خاصا تھا۔ شہری علاقوں کی سب سے بڑی جماعت متحدہ قومی موومنٹ شہر ميں قتل و غارت گری کے خلاف احتجاج کررہی ہے۔ اس جماعت کے رہنما اور حلقہ اين اے 250 کے لئے اميدوار خوش بخت شجاعت گو امن و امان کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کرتی ہيں مگر ان کا دعویٰ ہے کہ ايم کيو ايم نے ملک گير سطح پر انتخابی مہم شروع کر رکھی ہے۔
ايم کيو ايم کراچی ميں مشتبہ طالبان کی موجودگی کی وجہ سے بڑے انتخابی جلسوں اور ريليوں سے گريز کررہی ہے۔ حالانکہ ماضی ميں اس شہر ميں انتخابات کے موقع پر جوش و خروش ہوا کرتا تھا جو اب نظر نہيں آرہا۔ مبصرين کا کہنا ہے کہ سياسی جماعتيں اميدواروں کی حتمی فہرست جاری ہونے کا انتظار کررہی ہیں۔ اس کے بعد شہر ميں انتخابی تشہيري سامان کی فروخت، بينر، جھنڈوں کی بھرمار ماضی کی طرح نظر آسکے گی۔
سياسی تجزيہ نگار ڈاکٹر جعفر احمد اس بات سے اتفاق نہيں کرتے کہ کراچی ميں انتخابی سرگرمياں محدود ہونے کی وجہ سياسی جماعتوں کو دہشت گردی سے لاحق خطرات ہيں۔ ڈوئچے ويلے سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر جعفر نے کہاکہ انتخابات کے تسلسل کی وجہ سے اب عوام اور سياسی جماعتيں بالغ نظری سے کام لے رہی ہيں۔ ان کا کہنا ہے کہ آنے والے دنوں ميں انتخابی ہلہ گلہ، جلسہ وجلوس کم ہوں گے صرف ميڈيا پر سياسی بحث و مباحثے نے عوام کو آجز کرديا ہے۔
صوبہ سندھ اور پيپلز پارٹی کی سياست کے حوالے سے ڈاکٹر جعفر نے کہاکہ اب پيپلز پارٹی کے پاس انتخابی مہم چلانے والی کرشماتی شخصيت نہيں۔ ’’بينظير بھٹو کی موت کے بعد اس جماعت کے پاس سحر انگيز اور عوامی رہنما کی کمی ہے‘‘۔ انہوں نے کہاکہ شہری علاقوں ميں ايم کيو ايم اکثريتی پارٹی ہے۔ ان کے سامنے کسی حد تک جماعت اسلامی مزاحمت کرسکتی ہے، اے اين پی طالبان کی سرگرميوں کی وجہ سے محدود ہے، صرف خيبرپختونخوا اور بلوچستان ميں انتخابی مہم متاثر ہوسکتی ہے۔ کراچی کے شہری بدامنی، لاقانونيت اور دہشت گردی کے عادی ہوچکے ہيں اور اگر اب بھی کچھہ ہوتا ہے تو اس شہر ميں انتخابی مہم متاثر ضرور ہوگی۔ انتخابات ميں 20 روز باقی ہيں۔
سينئر صحافی وسعت اللہ خان کا کہنا ہے کہ اس شہر کی ماضی کی سياسی روايت کو ديکھتے ہوئے يہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ انتخابی مہم سست روی کا شکار ہے۔ گوکہ کراچی ايم کيو ايم کا مضبوط گڑھ تصور کيا جاتا ہے مگر اس شہر کے نوحی علاقوں ميں جہاں کبھی عوامی نیشنل پارٹی اپنا اثرورسوخ رکھتی تھی اب ان علاقوں کو کالعدم تحريک طالبان نے اپنی گرفت ميں لے رکھا ہے جس کی وجہ سے اے اين پی محدود ہوگئی ہے۔ ايم کيو ايم بھی ان کے خوف ميں مبتلا ہونے کی وجہ سے انتخابی مہم زوروشور سے چلانے سے گريز کررہی ہے۔
وسعت اللہ خان کا کہنا ہے کہ 85 کے اوائل ميں اس شہر ميں جماعت اسلامی، جمعيت علمائے پاکستان قومی سطح کی سياست کررہی تھيں مگر اب يہ سياست لسانی اور فرقہ وارانہ بنيادوں پر تقسيم ہوگئی ہے اور يہی خوف انتخابی مہم بھرپور انداز سے چلانے ميں رکاوٹ ہے۔
رپورٹ رفعت سعید، کراچی
ادارت شادی خان سیف