پاکستان میں سیاسی کشیدگی، کیا تاریخ خود کو دہرا رہی ہے؟
24 اگست 2022سابق وزیر اعظم اور حزب اختلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اپنے خلاف انسداد دہشت گردی کے الزامات کے تحت قائم مقدمے میں جمعرات 25 اگست کو عدالت میں پیش ہوں گے۔
عمران خان کو اختتام ہفتہ پر کی گئی ایک تقریر کے دوران اسلام آباد کی ایک خاتون ایڈیشنل جج کے خلاف غیرشائستہ اور دھمکی آمیز الفاظ استعمال کرنے پر انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمے کا سامنا ہے۔ اسی الزام پر ہی عمران خان کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ نے ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی بھی شروع کر رکھی ہے۔ اس مقدمے کی آئندہ سماعت اکتیس اگست کو ہو گی۔
پاکستان میں سیاسی حریفوں کی ایک دوسرے کے خلاف مقدمات درج کرانے کا اقدام کوئی نئی بات نہیں ہے۔ تاہم بعض قانونی اور سیاسی مبصرین کے خیال میں ملک کی موجودہ کشیدہ سیاسی صورتحال میں اس نوعیت کی قانونی لڑائیاں مزید سیاسی تقسیم کا سبب بن سکتی ہیں۔ معروف صحافی اور سیاسی تجزیہ کار نصرت جاوید نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ مقدمے بازی فریقین کے مابین بڑھتی ہوئی نفرت اور غصے کا پتہ دیتی ہے۔ نصرت جاوید کے مطابق، ''نوے کی دہائی میں بھی یہی سب کچھ ہو رہا تھا۔ بے نظیر اور نواز شریف ایک دوسرے پر اسی نوعیت کے الزامات لگا رہے تھے جیسا کہ آج کے سیاسی مخالفین ایک دوسرے پر لگا رہے ہیں۔ بدقسمتی سے وہی سیاسی کشیدگی کی تاریخ خود کو دہرا رہی ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ پاکستانی سیاستدانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ جب حکومت میں آتے ہیں تو ایسی چیزیں کرنا شروع کر دیتے ہیں جن کا وہ پہلے خود شکار رہ چکے ہوتے ہیں۔ عمران خان کے سابقہ دور میں نواز شریف، شہباز شریف، مریم نواز، رانا ثنا ء اللہ کو مقدمات کا سامنا تھا۔ اب وہ قتدار میں آئے تو عمران خان کو مقدمات کا سامنا ہے۔ نصرت جاوید کا کہنا ہے کہ جب تک حکمران اپنا رویہ نہیں بدلتے ملک کو اس افسوسناک صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا رہے گا۔
عمران خان نے اپنی ایک تقریر پی ٹی آئی کے ایک رہنما اور اپنے چیف آف سٹاف شہباز گل کے خلاف بغاوت کے مقدمے کی سماعت کرنے والی خاتون جج پر تنقید کی تھی۔ شہباز گل کے خلاف بدھ کے روز مقدمے کی کارروائی کے دوران جج نے ان کے مزید جسمانی ریمانڈ کی درخواست مسترد کرتے ہوئے انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوا دیا۔
اس سے قبل منگل کے روزپی ٹی آئی کی حکومت والے صوبے خیبر پختوانخواہ میں حکمران اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے رہنماؤں کے خلاف ''نفرت انگیز اور بغاوت پر اکسانے‘‘ والے بیانات دینے کے الزامات مین مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ پشاور کے ایک تھانے میں یہ مقدمہ ایک مقامی وکیل کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے۔ اس مقدمے میں تعزیرات پاکستان کی مختلف دفعات کے تحت وفاق میں حکمران مسلم لیگ (ن) کے رہنما نواز شریف ان کے بھائی اور وزیرا عظم پاکستان شہباز شریف، مریم نواز شریف، وفاقی وزرا رانا ثنا ء اللہ، خواجہ سعد رفیق کے علاوہ عطا تارڑ، ایاز صادق، پرویز رشید اور جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کو نامزد کیا گیا ہے۔
ملکی قوانین کو ایک دوسرے کے خلاف بے دریغ استعمال کو روکنے کے بارے میں سپریم کورٹ کے ایک سینئیر وکیل اور آئینی ماہر خواجہ حارث نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان میں سیاسی مخالفین کو سبق سکھانے کے لیے آج بھی انگریز کے چھوڑے ہوئے نو آبادیاتی قانون کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان قوانین کوسیاستدانوں، صحافیوں، طلبا اور اپنے حقوق کے لیے احتجاج کرنے والے دیگر افراد کے خلاف بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ خواجہ حار ث کا کہنا تھا، ''ہم ایک صدی پہلے غیر ملکی حکمرانوں کے بنائے ہوئے قوانین کو استعمال کر رہے ہیں، یہ ہماری حکومتوں اور قانون سازوں کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔ ‘‘ انہوں نے کہا کہ کسی ادارے یا فرد پر تنقید کرنے سے کوئی بھی فرد باغی یا غدار نہیں قرار دیا جا سکتا۔ غداری کا ایک خاص مطلب ہے جس میں آپ کسی غیر ملکی طاقت کا ایجنٹ بن کر اپنے ملک یا ریاست کے خلاف کام کریں اور ایسا ثابت ہو جائے تو تب غداری کا مقدمہ بنتا ہے ۔
خواجہ حارث کا کہنا ہے کہ سیاسی بدلے یا ذاتی عناد کے تابع بنائے گئے مقدمات عدالتوں پر بھی بے جا بوجھ ڈالتے ہیں، ''اگر آپ دیکھیں تو ہماری عدالتیں پہلے ہی بے تحاشہ زیر التوا مقدمات کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہیں اس پر سیاسی نوعیت کے مقدمات کی سماعت کا دباؤ ڈالنے سے عام آدمی کوانصاف کی فراہمی میں اور بھی مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں۔
خواجہ حارث کے مطابق اگر بات بے بات ایک دوسرے کو غدار اور باغی قرار دینے کا سلسلہ جاری رہا تو وہ وقت دور نہیں جب آپ کو اس معاشرے میں غداروں کی اکثریت گھومتی نظر آئے گی اور بقول ان کے شاید پھر مقدمات درج کرنے کی گنجائش بھی باقی نہ بچے گی۔
پاکستان کے ایک ممتاز ٹی وی میزبان اور سیاسی تجزیہ کار افتخار احمد کا اس معاملے میں نقطہ نظر تھوڑا مختلف ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سیاستدانوں اور عوامی شخصیات کو سوچ سمجھ کر بیانات دینے چاہیے۔ انہوں نے کہا، ''عمران خان صاحب نے صرف عدالتی فیصلے پر تنقید نہیں کی بلکہ ایک جج کو کھلے عام دھمکیاں بھی دیں۔ اب صرف چونکہ ان کے فالورز زیادہ ہیں تو کیا ان کے خلاف اس بات پر کارروائی نہیں ہونی چاہیے؟ دوسری جانب ایک ایم این اے علی وزیر ایک فوجی سربراہ کو مبینہ طور پر برا بھلا کہنے کے الزام میں دو سال سے کراچی کے ایک جیل میں قید ہے۔ تو پھر قانون کا اطلاق سب پر یکساں نہیں ہوا نا۔‘‘
افتخار احمد کا کہنا تھا کہ اگر انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعات لگا کر مقدمے کی کارروائی کو منطقی انجام تک نہ پہنچایا جائے تو پھر اس ایکٹ کو اٹھا کر باہر پھینک دینا چاہیے۔