پاکستان میں صحافت کے چار حالیہ ادوار
12 فروری 2019جنرل مشرف کے دور حکومت سے اب تک صحافت تین بنیادی ادوار سے گزر چکی ہے ۔ تیسرا دور مکمل ختم تو نہیں ہوا مگر چوتھا دور چپکے سے جنم لے چکا ہے۔ پہلا دور 2002 سے 2007 پر محیط ہے جو نئے دور کی صحافت کا آغاز ہے۔ دوسرا دور 2007 سے 2014کا دور ہے جو کافی حد تک آزاد صحافت کا دور ہے، جب کہ تیسرا دور 2014 سے آج تک کا دور ہے، جس میڈیا کے متنازع ہونے اور پابندیوں کا شکار رہنے کا دور ہے ۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ چوتھا دور بھی سامنے آچکا ہے۔
صحافت کا پہلا دور:
جب جنرل پرویز مشرف اور ان کے حواریوں نے اکتوبر 1999 میں ملکی اقتدار پر قبضہ کیا تو سال 2001 تک ملک ایک ایسے دور سے گزر رہا تھا، جہاں نجی ٹی وی چینلزکا نام و نشان نہیں تھا۔ اکتوبر 2002 میں بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی شرائط پر عمل درآمد کرتے ہوئے پہلی بار باضابطہ طور پر نجی ٹی وی چینلز کو پاکستان میں کام کی اجازت دی گئی تو ملک میں صحافت کی اہمیت نئے اور موثرانداز میں اجاگر ہوئی۔ یوں میڈیا حالیہ سالوں کے پہلے اور نئے دور میں داخل ہوا۔ ایک ایسا دور جس میں ٹی وی چینلز نے آہستہ آہستہ خبروں اور تبصروں پر اجارہ داری حاصل کرنا شروع کردی۔ اس دور میں میڈیا نے اکتوبر2005 کے زلزلے میں بے مثال کردار ادا کیا۔ گھروں میں والدین اپنے بچوں کو سی ایس ایس کرنے ، ڈاکٹر یا انجنئیر بننے کے ساتھ ساتھ میڈیا جوائن کرنے کے مشورے بھی دینے لگے نتیجاﹰ یونیورسٹیوں میں میڈیا سے متعلق شعبہ جات میں طلبہ کا سیلاب آنے لگا۔ میڈیا کا یہ دوسرا دور نو مارچ 2007 تک قائم رہا۔ جس میں میڈیا ایک ایسے بچےکی طرح تھا جواپنے آپ اور اپنی طاقت سے آشنائی حاصل کرنے میں مگن تھا۔
دوسرا دور
نو مارچ 2007کو فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف نے سپریم کورٹ کے تب کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو برطرف کیا تو میڈیا ملک میں آمریت کے خلاف شروع ہونے والی تحریک کا ہراول دستہ بن کر ابھرا۔ یہ میڈیا کے مجموعی طور پر دوسرے دور کا آغاز تھا۔ میڈیا بڑھ بڑھ کر طاقت کے مراکز کو چیلنج کر رہا تھا، یہ الگ بات کہ آمریت کے خلاف بننے والی علامت، سبکدوش چیف جسٹس درون پردہ طاقت کے انہی مراکز سے مذاکرات اور کچھ لو اور کچھ دو کی ڈیل میں مصروف تھے ۔ اس مرحلے پر پاکستان میں طاقت کے اصل مراکز کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ دن بہ دن طاقت پکڑتے اس میڈیا سے نمٹیں تو نمٹیں کیسے ؟ چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے ججز کی بحالی کے بعد تین نومبر 2007 کو ایک بارپھر برطرفی کی گئی تو اس عمل میں ٹی وی چینلزبھی بند کردیے گئے اور اخبارات کو بھی کڑی ہدایات دی گئیں ۔ یہ اس دور میں اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے میڈیا کو مکمل طورپر کنٹرول کرنے کی پہلی بڑی کوشش تھی۔ معافی تلافی اور منت سماجت کے ساتھ بدلتے سیاسی حالات اور دن بدن کمزور ہوتے پرویز مشرف نے ایک وقفے کے بعد ٹی وی چینلز کو بحال کردیا۔ 18 اگست 2008 کو مشرف تو مستعفی ہوگئے ۔ مگر طاقت کے مراکز کی نظر حکومت کے ساتھ ساتھ میڈیا پر بھی اٹک گئی کیونکہ ملک میں صحافت ، طاقت کی ایک نئی شکل بن کر ابھری تھی جس نے اسٹیبلشمنٹ کے مراکز کو ہلا کررکھ دیا تھا۔ ظاہر ہے اسے کنٹرول کرنا بھی ترجیحات میں شامل ہوگیا تھا۔
اس دور میں میڈیا نے اپنی طاقت کے نشے میں کچھ غلطیاں بھی کیں ۔ میڈیا محض حقائق رپورٹ کرنے کے ساتھ ساتھ احتساب کا ایک ہتھیار بھی بن گیا تھا۔ طاقت کے مراکز کو سال 2008 میں میڈیا کی طرف سے ممبئی حملوں میں ملوث اجمل قصاب کی پاکستانی شہریت کی رپورٹنگ کا بھی بڑا رنج تھا۔ اس عمل کو ملکی مفاد کے خلاف قرار دیا جارہا تھا۔ یہ عمل ملکی مفاد کی خلاف ورزی تھا یا نہیں یہ ایک مکمل الگ موضوع بحث ہے مگر یہاں ایک تاریخی درستگی بھی ضروری ہے ۔ اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ اجمل قصاب کی پاکستانی شہریت کی خبر پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا گروپ جنگ کے ٹی وی چینل جیو نیوز نے دی حالانکہ یہ سراسر غلط ہے ۔ یہ خبر سب سے پہلے دائیں بازو کےایک میڈیا گروپ نوائے وقت کے وقت ٹی وی نے نشر کی تھی ۔ بعدازاں یہ خبرڈان پر نشر ہوئی ۔ پھر ایک غیر ملکی اخبار نے اسے شائع کیا تو پاکستانی میڈیا کے تمام چینلز بشمول جیو نے اسے رپورٹ کیا۔ چونکہ لوگ دیکھتے ہی جیو تھے اس لیے طاقت کے مراکز بھی یہ سمجھ بیٹھے کہ شاید یہ خبر جیو نیوز نے ہی سب سے پہلے دی جو کہ ہرگز درست نہیں۔
تیسرا دور :
معروف ٹی وی اینکر حامد میر پر حملے کے بعد میڈیا تیسرے دور میں داخل ہوا ۔ اس واقعے کے بعد ایسا کیچڑ اچھالا گیا کہ ہرطرف گند ہی گند ہو گیا۔ میڈیا اداروں میں ایسی تقسیم آئی کہ خدا کی پناہ۔ دراصل سال 2007 سے 2014 کے دوران جب میڈیا طاقت کے عروج پر تھا اور اقتدار اور طاقت کے بڑے بڑے ایوانوں کو چیلنج کر رہا تھا تو اسی وقت میڈیا کے اس جن کو بوتل میں بند کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی تھی۔ طاقت کے عروج کے دنوں میں میڈیا کے اداروں میں کچھ لوگوں کی خدمات مستعار لی گئیں تو کچھ لوگوں کو خاص طورپر میڈیا اداروں میں شامل کروایا گیا۔ بعض کیسز میں توادارے کے ادارے ٹھیکے پر لے لیے گئے اور کچھ نئے ادارے قائم کرکے قیام پاکستان سے موجود میڈیا کے اداروں پر گند اچھالا گیا۔ اس سارے عمل میں میڈیا کے اندر اہم عہدوں پر تعینات کچھ کرداروں نے اسٹیبلشمنٹ کی خوب معاونت کی۔ وہ کردارآج بھی میڈیا کے اداروں میں بدستور موجود ہیں کیونکہ پاکستانی میڈیا مالکان کوطاقتورحلقوں سے بات چیت کے لیے ان کی خدمات درکارہیں لہذا دونوں کا کام چل رہا ہے۔
2014 میں حامد میر پر حملے کے بعد سے آنے والا ہرسال میڈیا کو متنازع بنانے اور ممتاز ، پیشہ ور صحافیوں کی درگت بنانے جیسے واقعات سے بھرا پڑا ہے۔ آئے روزصحافت اور صحافی زوال کے نئے عروج پکڑ چھو رہے ہیں۔ اس عمل کے دوران خاموشی سے میڈیا کے اندر چھاتا بردار طبقہ بھی آن دھمکا ۔ یہ طبقہ زیادہ تر ٹی وی اینکرز کی شکل میں نمودار ہوا۔ کسی صحافتی پس منظر کے بغیر خاموشی سے میڈیا میں در آنے والے ان حضرات کے پاس یا تو طاقتورحلقوں کی پرچی تھی یا کسی کی سفارش۔ دونوں صورتوں میں یہ افراد یہ ضرورسمجھ چکے تھے کہ پاکستانی میڈیا میں کامیابی کی واحد کنجی طاقت کے اصل مراکز کے ہاتھ پر بیعت کرنا ہی ہے۔
آج میڈیا پر کوئی پیشہ ورصحافی سوال اٹھائے تو اس کے سوال پر غور کرنے کی بجائے اس پر الزام عائد کرکے اسے متنازع کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس عمل کا سب سے زیادہ سامنا دی نیوز کے معروف تحقیقاتی صحافی عمر چیمہ کو ہے ۔ ان کے ہم راہ احمد نورانی بھی اپنی خبروں اور تبصروں کے باعث ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہیں۔ یہ کام اعلیٰ ترین سرکاری سطح سے شروع ہوکر سوشل میڈیا پر موجود ہر دوسرا شخص کر رہا ہے ۔ ابھی کل کی بات ہے ممتاز صحافی عاصمہ شیرازی حکومت پرایک سوال اٹھاتی ہیں تو جواب میں پنجاب حکومت کے ترجمان ان پر بے بنیاد الزامات عائد کردیتے ہیں۔ بے بنیاد الزامات کا دلائل سے جواب دیا جاتا ہے تو معافی مانگنا تک گوارا نہیں کیا جاتا۔ تاہم عاصمہ شیرازی کے خلاف سوشل میڈیا پر خوب مہم چلائی جاتی ہے ۔
میڈیا کو تو پہلے ہی متنازع بنا دیا گیا تھا مگر معاشی بحران نے رہی سہی کسر بھی نکال دی ۔ اعشاریے اور علامتیں بتا رہی ہیں کہ پاکستان میں صحافت اور صحافی آنے والے کئی سالوں تک مشکل کا شکار رہیں گے۔ صرف پاکستان میں میڈیا معاشی بحران کا شکار نہیں بلکہ دنیا کے بعض دوسرے ممالک بھی اس کی لپیٹ میں ہیں۔ پاکستان میں بھی اس کی ایک وجہ ٹیکنالوجی ہے تو دوسری اہم وجہ حکومت اور میڈیا مالکان کی آنکھ مچولی بھی ہے ۔ حکومت میڈیا مالکان کے کم و بیش پانچ ارب روپے دینے سے گریزاں ہے تو میڈیا مالکان بھی صحافیوں کو اپنے خالی ہاتھ اورجیبیں دکھا رہے ہیں۔ اس سارے عمل نے خبر اور معلومات کی رسائی جیسے نازک مگر انتہائی اہم کام کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ اخبارات اور ٹی وی چینل کی خبروں اور تبصروں کی مکمل نگرانی ہورہی ہے۔ جس کے باعث سچ کی کڑواہٹ بیان کرنے والی آوازیں مدہم ہورہی ہیں یا ٹی وی سکرین اور اخبارات کے صفحات سے غائب۔
صحافت کے تین ادوار میں سے تیسرا دور بدترین تباہی کا دور ہے۔ یہ دور میڈیا کے اداروں پر مکمل کنڑول کا زمانہ ہے ۔ پہلے میڈیا کی پہنچ اور رسائی پر کنڑول حاصل کیا گیا ، پھر میڈیا اداروں کے اندر ایسے گھس بیٹھیے داخل ہوئے جو نام تو صحافت کا لیتے رہے مگر چھید بھی اسی تھالی میں کرتے رہے ۔ اس سارے عمل کے ساتھ خاموشی سے یہ کب ختم ہوگا۔ کسی کو کچھ پتہ نہیں لیکن اگرسیاسی سطح پر کچھ مثبت تبدیلیاں نہ آئیں اور آئین کی بالادستی صحیع معنوں میں قائم نہ ہوئی تو ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا ہی صحافت کے چوتھے دور کی نشانی ہوں گے ۔
دنیا بھر میں صحافت اور میڈیا کے اداروں کی بجائے اب صحافیوں کو دیکھا جانے لگا ہے۔ آزاد صحافت کے لیے آزاد صحافیوں کے ٹویٹر ، فیس بک اور یو ٹیوب اکاونٹس پر نظررکھی جارہی ہے ( ہاں کچھ جعلی کردار بھی اس میں گھس رہے ہیں) پاکستان بھی صحافت کے اسی دور کی سمت بڑھ رہا ہے ۔
اگر ایسا ہے تو پاکستان میں صحافت کے چوتھے دور کا آغاز اسی روز ہوگیا تھا، جس روز پاکستان کے پہلے صحافی نے سوشل میڈیا کو مستند خبروں اور تجزیے کے اجرا کے لیے اپنا ہتھیار بنایا۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ چوتھا دور میڈیا کے اداروں کی تباہی اور صحافیوں کی بے روزگاری کے ملبے کے نیچے سے نکل رہا ہے ۔ سچ کا سفر مگر جاری ہے ۔ اگر پابندیوں کا انداز نیا ہے تو سچ بولنے والے بھی نت نئے راستے نکال رہے ہیں۔