پاکستان میں صحافیوں پر حملوں میں دو تہائی اضافہ
3 مئی 2023گزشتہ برس پاکستان میں کم از کم پانچ صحافیوں کو قتل کر دیا گیا۔ صحافیوں اور انسانی حقوق کی تنظیمیں بارہا یہ مطالبہ کر چکی ہیں کہ انصاف کے مروجہ نظام میں کسی طرح صحافیوں کے خلاف جرائم میں کمی پر توجہ دی جائے لیکن ارباب حل و عقد کو اس پر اب تک خاطر خواہ توجہ دینے کا وقت نہیں ملا ہے۔
ذرائع ابلاغ اور ان کے کارکنوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والی ایک پاکستانی تنظیم فریڈم نیٹ ورک کی عالمی یوم آزادی صحافت کی مناسبت سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پچھلے بارہ ماہ میں صحافیوں کے خلاف حملوں اور دھمکیوں کے140 سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے جو اس سے پچھلے سال کی نسبت63 فیصد زیادہ ہیں۔
پاکستان، خوف کا ماحول اور ٹکڑوں میں بٹی صحافت
فریڈم نیٹ ورک کے سربراہ اقبال خٹک نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ پاکستان ایشیا میں ایسا پہلا ملک ہے جہاں نہ صرف وفاقی سطح پر بلکہ سندھ میں صوبائی سطح پر بھی صحافیوں کے تحفظ کے لیے قوانین بن چکے ہیں۔ مگر ان قوانین کو بنے دو برس ہو چکے ہیں تاہم ان کے تحت بنائے جانے والے سیفٹی کمیشن کا وجود تاحال صر ف دستاویزات میں ہی دکھائی دیتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی وفاقی حکومت نے سیفٹی کمیشن بنایا ہی نہیں جبکہ سندھ حکومت نے ڈیڑھ سال بعد کمیشن تو بنا دیا مگر اسے نہ تو کوئی وسائل مہیا کیے گئے اور نہ ہی عملہ۔ اقبال خٹک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،"ان قوانین کے 2021 میں بننے کے بعد سے اب تک 11 صحافی قتل ہو چکے ہیں جبکہ 70کے لگ بھگ صحافی مختلف قسم کی دھمکیوں، حملوں، پرتشدد واقعات اور قانونی مقدمات کا سامنا بھی کر چکے ہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ صحافیوں کے تحفظ کے ایسے قوانین کا کیا فائدہ، جو ان پر حملوں اور انہیں دی جانے والی دھمکیوں تک کا تدارک نہ کر سکے؟”
جنوبی ایشیا کی ہائی برڈ جمہوریتوں میں آزاد صحافت اور مشکلات
جرنلزم فار ہیومن رائٹس نامی ویب سائٹ کی بانی صحافی سعدیہ مظہر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ آزادی صحافت پاکستان میں تو ابھی تک ایک خواب سے زیادہ کچھ بھی نہیں اور ڈیجیٹل میڈیا کے دور میں پیشہ وارانہ صحافت کوسب سے زیادہ جدوجہد مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن کے خلاف کرنا پڑ رہی ہے۔
آزادی صحافت پاکستان میں ابھی تک ایک خواب
انہوں نے بتایا کہ صحافت کے نام پر پروپیگنڈا اور جھوٹ کے خلاف جدوجہد کے دوران انہوں نے جب معلومات تک رسائی کے قانون کے آرٹیکل 19 اے کا استعمال شروع کیا، تو انہیں حکومتی اداروں کی جانب سے مسلسل دھمکیاں دی جاتی رہیں اور ہراساں کیا جاتا رہا۔
سعدیہ مظہر کے مطابق،"میں صرف یہ جاننا چاہتی تھی کہ مثلاً ہمارے علاقے سے منتخب ہونے والے اراکین پارلیمان نے صوبائی اور قومی اسمبلیوں میں جا کر اپنے اپنے علاقوں کے لیے کیا کچھ کیا؟ حکومت کی جانب سے نجی اداروں کوکوڑیوں کے عوض زمین پٹے پر کیوں دی جاتی ہے اور مثلاً سندھ حکومت نے اب تک تعلیم پر اور سرکاری اسکولوں میں کتنی رقوم خرچ کیں؟ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مجھے اپنے موبائل فون پر روزانہ نامعلوم نمبروں سے ایسے پیغامات موصول ہوتے ہیں، جن کا مقصد بطور صحافی مجھے ڈرانا ہے۔"
انہوں نے بتایا کہ انہوں نے بطور صحافی صرف یہ پوچھا تھا کہ پاکستانی صوبہ پنجاب کے شہر ساہیوال میں جس زمین پر ساہیوال کلب کی عمارت قائم ہے، آیا وہ زمین سرکاری ہے، تو اس کے جواب میں خود انہیں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا۔
پاکستان کی ایک اور غیر سرکاری تنظیم انسٹیٹیوٹ فار ریسرچ، ایڈووکیسی اینڈ ڈویلپمنٹ (ارادہ) کے سربراہ محمدآفتاب عالم نے ورلڈ پریس فریڈم ڈے اور پاکستان میں آزادی صحافت کی موجودہ صورت حال کے حوالے سے ڈی ڈبلیو کوبتایا کہ صحافیوں کا تحفظ یقینی نہ بنایا گیا تو میڈیا کی آزادی کو یقینی کیسے بنایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا آزاد نہ ہوا تو اظہار رائے کی آزادی بھی معدوم ہوتی جائے گی اور جمہوری اقدار بھی مضبوط کے بجائے کمزور ترہوتی جائیں گی۔
آفتاب عالم نے بھی یہ مطالبہ کیا کہ پاکستان کی وفاقی حکومت صحافیوں کی سلامتی اور تحفظ سے متعلق قانون کے تحت سیفٹی کمیشن قائم کرے اور اسے وسائل بھی مہیا کرے۔ اس کے علاوہ وفاقی حکومت اور صوبہ سندھ کی طرح دیگر صوبوں میں بھی صحافیوں کے تحفظ کے لیے قانون سازی کی جائے۔
پاکستان میں صحافتی تنظیمیں چھوٹے چھوٹے دھڑوں میں تقسیم
پاکستان کی خواتین صحافیوں کی تنظیم ویمن جرنلسٹس ایسوسی ایشن کی بانی اور نیشنل پریس کلب اسلام آباد کی سابق جوائنٹ سیکرٹری فوزیہ کلثوم رانا نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا،"یوم آزادی صحافت پاکستان میں محض ایک دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ صحافتی تنظیمیں علامتی نعرے تو لگاتی ہیں لیکن صحافیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے عملی اقدامات کرتی دکھائی نہیں دیتیں۔"
’صحافت ہتھیار ڈالنے کا نہیں، سچ رپورٹ کرنے کا نام ہے‘
فوزیہ رانا کے مطابق،"پاکستان میں صحافتی تنظیمیں چھوٹے چھوٹے دھڑوں میں تقسیم ہیں۔ اسی لیے صحافیوں کے تحفظ کی تحریک بھی کمزور ہے۔ جہاں معروف پاکستانی صحافی ارشد شریف کو کینیا میں پراسرار حالات میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، وہیں کبھی عاصمہ شیرازی، کبھی منیزے جہانگیر تو کبھی فریحہ ادریس کو ریاستی اداروں یاپھر سیاسی جماعتوں کے کارندوں کی جانب سے ڈیجیٹل سطح پر ہراساں کیے جانے کا ہر روز سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اگر صحافی خواتین مخصوص کردار کے تحت اپنے آپ کو ڈھال لیں تو ان کو اس شعبے میں قبولیت ملتی ہے، ورنہ صحافت ان کے لیے انتہائی مشکل پیشہ بن جاتا ہے۔"
’ورلڈ پریس فریڈم ہیرو‘ کا اعزاز پاکستانی صحافی کے نام
پاکستان میں صحافیوں اور آزادی صحافت پر حملے اتنا بڑا مسئلہ بن چکے ہیں کہ ابھی حال ہی میں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے بھی اپنی تازہ ترین سالانہ رپورٹ میں ملک میں صحافیوں پر حملوں اور ان کے خلاف پرتشدد جرائم کی مذمت کی تھی۔