پاکستان میں فضائی سفر کتنا محفوظ
5 نومبر 2010اس جہاز پر عملے کے دو ارکان سمیت کُل 21 افراد سوار تھے، جو سب کے سب جاں بحق ہوگئے۔ ابتدائی طور پر اس حادثے کی وجہ فنی خرابی بتائی جارہی ہے۔ آج تک پاکستانی طیاروں کو پیش آنے والے حادثات میں سات سوسے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ آج تک کسی ایک بھی طیارے کو پیش آنے والے حادثے کی کوئی تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پر نہیں لائی گئی۔ یوں ان حادثات کی وجوہات سول ایوی ایشن اتھارٹی کی فائلوں ہی میں دفن ہو جاتی ہیں۔
1965 میں پاکستان کی قومی ایئر لائن کا ایک بوئنگ 720 مصری دارالحکومت قاہرہ میں گر کر تباہ ہوگیا تھا۔ اس حادثے میں 125 افراد جاں بحق ہوئے جبکہ چھ معجزانہ طور پر بچا لئے گئے تھے۔ 26 نومبر 1979 کوسعودی عرب میں پیش آنے والے ایک فضائی حادثے میں 156 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ 25 اگست 1979 کو اسلام آباد سے گلگت جاتے ہوئے ایک فوکر طیارہ حادثے کا شکار ہوا اور اس حادثے میں 54 افراد موت کے منہ میں چلے گئے تھے۔
28 ستمبر 1992 کو کٹھمنڈو میں پہاڑوں سے ٹکراکر PIA کا ایک طیارہ تباہ ہو گیا تھا اور سانحے میں 167 افراد لقمہء اجل بن گئے تھے۔ دس جولائی 2006 کو ملتان میں فوکر طیارے کے ایک حادثے میں بھی 45 افراد مارے گئے تھے۔
ان فضائی حادثات کی یاد ایک مرتبہ پھر اس وقت تازہ ہوئی جب اسی سال 28 جولائی کو ایئر بلو کا ایک مسافر ہوائی جہاز کراچی سے اسلام آباد جاتے ہوئے مارگلہ کی پہاڑیوں میں گر کر تباہ ہوگیا تھا۔ اس حادثے میں 152 افراد کی جانیں ضائع ہوئی تھیں۔ آج پانچ نومبر، جمعہ کی صبح ایک نجی ایئر لائن کا ایک چارٹر طیارہ، جو ایک اطالوی گیس کمپنی کے ملازمین کو لے کر بھٹ شاہ کے آئل فیلڈ کی طرف جا رہا تھا، کراچی ایئر پورٹ سے پرواز کے محض چند ہی منٹ بعد فوج کے ایک آرڈیننس ڈپو میں گر کر تباہ ہوگیا۔ اس طیارے پر سوار تمام 21 افراد ہلاک ہو گئے، جن میں عملے کے دو ارکان بھی شامل تھے۔
ایئرکرافٹ کریش انویسٹی گیٹر ایئر کموڈور نسیم احمد کا کہنا ہےکہ پرواز سے قبل ہر طیارے کی لازمی جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔ پائلٹ کی حتمی رپورٹ کے بعد ہی پرواز کی اجازت ملتی ہے۔ ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے نسیم احمد نے بتایا کہ کنٹرول ٹاور کے مطابق حادثے کا شکار ہونے والے جہاز کے پائلٹ نے انجن کی خرابی کا ذکر کیا تھا۔
نسیم احمد کے بقول پائلٹ کی تربیت اس طرح کی جاتی ہے کہ اگر اسے موقع ملے تو وہ جہاز کو بحفاظت زمین پر اتارنے کی کوشش ضرور کرتا ہے اور اگر پائلٹ کسی بھی طرح کی صورتحال پر قابو نہ پاسکے تو اس کی باقاعدہ تحقیقات ضرور ہونا چاہئیں۔
فضائی حادثات کی تحقیقات کرنے والے ایئر کموڈور نسیم احمد نے بتایا کہ پاکستان میں سیفٹی انویسٹی گیشن بورڈ میں نااہل افراد تعینات ہیں۔ ان کی تعلیمی قابلیت معیاری نہیں۔ اسی وجہ سے جہازوں کی چیکنگ کا نظام قابل اعتماد نہیں رہتا۔ نسیم احمد نے کہا کہ ہر فضائی حادثے کی تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پر آنی چاہئے تاکہ قومی اداروں کی کارکردگی سے متعلق عوام اور حکام دونوں باخبر رہ سکیں۔
رپورٹ: رفعت سعید، کراچی
ادارت: عصمت جبیں