’پاکستان میں فلڈ ٹیکس لگایا جا سکتا ہے‘
3 ستمبر 2010اسرار رﺅف نے بتایا کہ سیلاب کی وجہ سے محاصل کی وصولی کانظرثانی شدہ ہدف بھی متاثر ہوگا۔ انہوں نے بتایاکہ اس سال ٹیکس جمع کرنے کا مقررہ ہدف پورا ہونا مشکل نظر آتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں اسرار رﺅف کا کہنا تھا کہ سیلاب سے مواصلات کا نظام سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے، جس کی وجہ سے پل اور سڑکیں نئے سرے سے تعمیر کرنا ہوں گی لہٰذا انفراسٹرکچر کی تعمیر پر بھاری اخراجات آئیں گے۔ اسرار رﺅف نے وضاحت کی کہ1970 ءمیں بنگلہ دیش میں آنے والے سیلاب کے نتیجے میں حکومت نے ٹیکس نہیں بلکہ سرچارج لگایا تھا اوراب بھی صرف سرچارج لگانے کی تجویز ہے۔
دوسری جانب ماہر معاشیات ڈاکٹر حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ سیلاب کی وجہ سے مجموعی قومی پیداوار کو سات ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہو سکتا ہے۔ وزارت خزانہ کے ایک جائزے کے مطابق رواں سال میں معاشی ترقی صفر، جبکہ مہنگائی کی شرح 25 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ شرح بےروزگاری میں اضافے کا خدشہ بھی ہے۔ معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ امدادی کاموں اور تعمیر نو کے ابتدائی اخراجات کو مد نظر رکھتے ہوئے رواں مالی سال میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو150 ارب روپے سے زائد کی رقم خرچ پڑ سکتی ہے۔ ان حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ سیلاب کے باعث ہونے والی مہنگائی کی وجہ سے متاثرین سیلاب سمیت چھ کروڑ 80 لاکھ شہری یا 40 فیصد سے زائد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سیلاب کے نتیجے میں فصلوں کی تباہی نے معاشی صورتحال کا رخ یکسر تبدیل کردیا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق فصلوں کی تباہی سے 200 سے 250 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔
رپورٹ: رفعت سعید، کراچی
ادارت: ندیم گِل