پاکستان میں متنازعہ چینی جوہری پلانٹس کی تعمیر کا آغاز
20 اگست 2015ان جوہری بجلی گھروں سے 1100 میگا واٹ بجلی کی پیداوار کے ذریعے ملک کو درپیش بجلی کے بحران کو دور کرنے میں مدد ملے گی۔ یہ بجلی گھر 20 ملین کی آبادی والے شہر کراچی سے قریب 20 میل کے فاصلے پر تعمیر کیے جائیں گے۔ اس مقام پر ایٹمی بجلی گھروں کی مجوزہ تعمیر سائنسدانوں، علاقے کے رہائشیوں اور تحفظ ماحولیات کے ماہرین کے لیے گہری تشویش کا سبب بنی ہوئی ہے۔ چینی تعاون سے شروع کیے جانے والے اس جوہری منصوبے کی شدید مخالفت سامنے آنے کے بعد کچھ عرصہ قبل اس منصوبے پر کام کا آغاز ایک عدالتی فیصلے کے بعد مؤخر کر دیا گیا تھا۔
آج جمعرات کے روز ان نیوکلیئر پلانٹس کی تعمیر کے منصوبے کے افتتاح کے موقع پر اپنے خطاب میں وزیر اعظم نواز شریف کا کہنا تھا،’’K2 اور K3 کراچی کے نیوکلیئر پاور پلانٹ کینوپ کے نزدیک تعمیر کیے جائیں گے۔ یہ وہ پلانٹ ہے جو 43 سال پہلے تعمیر ہوا تھا۔‘‘
پاکستان کو ایک طرف تو بجلی کی شدید کمی کا سامنا ہے اور دوسری جانب گرمیوں کے موسم کی شدت بھی عروج پر رہتی ہے۔ خاص طور سے جون اور جولائی کے مہینوں کے دوران درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے۔ گرمی کی اسی شدت کے سبب پاکستان میں قریب چار ہزار میگاواٹ تک بجلی کی قلت پیدا ہو چکی ہے۔ نواز شریف کا کہنا تھا، ’’لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہماری اولین ترجیح ہے۔‘‘ پاکستانی وزیر اعظم نے یہ بیان ملک میں پائے جانے والے بجلی کے بحران اور اس کے سبب کی جانے والی لوڈ شیڈنگ کے موجودہ شیڈول کے ضمن میں دیا۔
پاکستان دنیا کے ان چند ترقی پذیر ممالک میں سے ایک ہے جو2011 ء میں جاپان میں فوکوشیما کے ایٹمی حادثے کے تناظر میں ایٹمی توانائی کے ذریعے اپنی ضروریات پوری کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ کراچی کے نزدیک ان پاور پلانٹس کی تعمیر کے پروجیکٹ پر پانچ بلین ڈالر فی پاور پلانٹ کے اخراجات کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ یہ مجوزہ منصوبے اس لیے بھی متنازعہ ہیں کہ ان کے ڈیزائنز کا حقیقی زندگی میں کوئی تجربہ نہیں کیا گیا۔
کراچی تین بڑی ٹیکٹونک پلیٹوں کے سنگم کے قریب واقع ہے، جو ماہرین کی طرف سے کی گئی درجہ بندی کے اعتبار سے سونامی کے خطرات سے دوچار ہے۔ جوہری طبیعیات کے ماہر پرویز ہودبھائی نے اس بارے میں اے ایف پی کو بتایا، ’’K2 پروجیکٹ کی تعمیر کا آغاز ایک ایسے وقت پر کیا جا رہا ہے، جب اس پروجیکٹ کے معاون ملک چین میں ابھی حال ہی میں شہر تیانجن کے کیمیائی گودام میں حادثے کے بعد قریبی علاقوں کے پانی میں سائنائیڈ کی مقدار میں ڈرامائی اضافے کی نشاندہی ہوئی ہے۔ اس حادثے نے چین میں ماحولیات اور صنعتی حفاظتی معیار کو بے نقاب کر دیا ہے۔‘‘ اس حادثے میں 114 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
ہودبھائی کے بقول نواز شریف حکومت چین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پاکستان میں جوہری توانائی کے بحران کا مقابلہ اسی انداز میں کرنا چاہتی ہے۔