پاکستان میں مردم شماری کا عمل اور اقلیتیں
21 مئی 2017پاکستان کی اقلیتی آبادی کے خیال ہے کے سن 1998 کے بعد ہونے والی مردم شماری کی وجہ سے ملکی سیاست میں اقلیتیوں کی سیاسی نمائندگی بہتر ہونے کا امکان ہے۔ پاکستانی صوبے پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے نواح میں ملک کی سب سے بڑی اقلیتی بستی یوحنا آبا واقع ہے۔
اس کے ایک رہائشی اور کمیونٹی کے سرگرم کارکن ساجد کرسٹوفر نے نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مردم شماری سے دو فوائد سامنے آ سکتے ہیں، اولاً اس سے ملک میں اقلیتوں کی حتمی تعداد کا تعین ہو سکے گا اور دوسرا پارلیمنٹ میں اُن کی نمائندگی میں یقینی طور پر اضافہ ہو گا۔
شیعہ اقلیت اور مردم شماری عملے کو نشانہ بنایا: جماعت الاحرار
مردم شماری کا آغاز، سروے فارم میں ’ٹرانس جینڈر کا کالم غائب‘
پاکستان: خواجہ سراؤں کو مردم شماری میں شامل کیا جائے گا
پاکستان میں ابھی تک آبادی کی بڑھتی رفتار پر کنٹرول نہیں کیا جا سکا ہے۔ اس وقت پاکستان آبادی کے اعتبار سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے اور بیس کروڑ نفوس کا ملک خیال کیا جاتا ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ پاکستانی دستور کے تحت ہر دہائی کے ختم ہونے پرمردم شماری کرانا لازمی ہے لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے مختلف حصوں میں مخدوش حالات و واقعات کے باعث اس عمل کو ملتوی کیا جاتا رہا ہے۔ حالیہ مردم شماری کے دوران بھی اس عمل میں شامل ٹیموں کو کئی مقامات پر حملوں کا سامنا رہا ہے۔
اندازہ لگایا گیا ہے کہ پاکستان میں مسیحی آبادی دس ملین تک ہو سکتی ہے اور ہندو برادری کی تعداد ساڑھے پانچ ملین ہو سکتی ہے۔ غیر مسلم قرار دی گئی احمدی کمیونٹی کے افراد کی تعداد بھی پانچ لاکھ کے قریب خیال کی جاتی ہے۔
مردم شماری کے حوالے سے اقوام متحدہ کے ادارے یو این ایف پی (UNFP) کی مشیر نینسی اسٹائیگر کا کہنا ہے کہ اس عمل سے اقلیتوں کے ساتھ ساتھ بقیہ آبادی کے لیے بہتر منصوبہ بندی ممکن ہو گی۔
مردم شماری کے عمل میں سب سے مشکل احمدی کمیونٹی کے اعداد و شمار جمع کرنے میں آ رہی ہے۔ صوبہ بلوچستان میں ایک مسجد میں جمع کیے گئے احمدی کمیونٹی افراد کو مردم شماری کے لیے طلب کیا گیا تھا لیکن علاقے کے دوسری مسلمان آبادی اُن کے درپے ہو گئی کہ اُس نے اپنا مذہب احمدی کیوں بتایا ہے۔
اس وقت مردم شماری کے حوالے سے کئی قسم کے شکوک بھی سامنے آئے ہیں کہ متعین عملہ مناسب انداز سے اعداد و شمار جمع کرنے میں کہیں کہیں کوتاہی کا مرتکب ہو رہا ہے۔