پاکستان میں مرچوں کی کم ہوتی پیداوار، اسباب کیا ہیں؟
10 نومبر 2022رواں برس انتہائی موسمی حالات نے پاکستانی کسانوں کے لیے بہت بڑی مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔ یہ بات 40 سالہ کسان لیمان راج نے بھی محسوس کی ہے، ''پہلے پودے گرمی سے بری طرح متاثر ہوئے، پھر بارشیں ہوئیں اور موسم بالکل بدل گیا۔ ساری مرچیں گل سڑ گئی ہیں۔‘‘
پہلے شدید گرمی پھر سیلاب
پاکستان میں بہت سے لوگوں کا انحصار زراعت پر ہے۔ ایک طرف تباہ کن گرمی فصلوں کو متاثر کر رہی ہے تو دوسری طرف شدید بارشوں نے تباہی مچائی ہوئی ہے۔ راج بتاتے ہیں، ''جب میں چھوٹا تھا تو کبھی بھی اتنی شدید گرمی نہیں تھی۔ ہماری پیداوار بھرپور ہوتی تھی۔ اب پیداوار مسلسل سکڑتی جا رہی ہے۔‘‘
مرچیں بچانے کے لیے کپاس کی قربانی
سیلاب آیا تو کسانوں کو بھی قربانی دینا پڑی۔ کسان فیصل گِل بتاتے ہیں، ''ہم نے گڑھے کھود کر مرچ کے کھیتوں سے پانی کپاس کے کھیتوں کی طرف نکالا۔‘‘ اس طرح کم از کم مرچوں کی 30 فیصد فصل کو بچا لیا گیا۔ لیکن دوسری طرف کپاس کے کھیت برباد ہو گئے اور کسانوں کو بچی کھچی فصل کو آگ لگانا پڑی۔
زراعت ریڑھ کی ہڈی
اندازوں کے مطابق حالیہ سیلاب سے پاکستان کو 40 ارب ڈالر کا مادی نقصان ہوا ہے۔ پاکستان مرچوں کی پیداوار کے حوالے سے دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے۔ یہاں سالانہ 60 ہزار ہیکٹر پر تقریباً ایک لاکھ چالیس ہزار ٹن مرچیں کاشت کی جاتی ہیں۔ پاکستان خاص طور پر موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار ہے کیونکہ زراعت پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔
مارکیٹ کے لیے مرچیں خشک کرنا
مرچوں کی فروخت سے پہلے انہیں دھوپ میں خشک کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں ایرڈ زون ریسرچ سینٹر کے ڈائریکٹر عطا اللہ خان کہتے ہیں، ''یہ مسلسل تیسرا سال ہے کہ مرچوں کی فصل متاثر ہو رہی ہے اور بیماریاں اس فصل کی پیداوار کو تباہ کر رہی ہیں۔ یہ پاکستان کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔‘‘
پاکستان میں مرچوں کا گڑھ
مرچیں چننے اور سکھانے کے بعد انہیں بوریوں میں بند کر کے کُنری مارکیٹ تک لایا جاتا ہے۔ صوبہ سندھ کی تحصیل کُنری کو مرچوں کا 'دارالحکومت‘ بھی کہا جاتا ہے۔ وہاں مرچوں کے پہاڑ دیکھ کر نہیں لگتا کہ ان کی پیداوار میں کمی ہوئی ہے، لیکن یہ نظر کا دھوکا ہے۔
تاجر بھی پریشان
نہ صرف کسان بلکہ تاجر بھی اپنے مستقبل کے حوالے سے پریشان ہیں۔ تاجر راجہ دائم کہتے ہیں، ''گزشتہ سال اسی وقت یہاں کی مارکیٹ میں آٹھ ہزار سے 10 ہزار بوریاں تھیں۔ اس سال یہ بمشکل دو ہزار ہیں اور یہ پہلے ہفتے کا پہلا دن ہے۔
ا ا / ش ح (روئٹرز)