پاکستان میں مسیحی خاتون کے لئے سزائے موت کا حکم
12 نومبر 2010صوبہ پنجاب کے ضلع ننکانہ کی ایک عدالت نے 45 سالہ مسیحی خاتون آسیہ بی بی کے لئے موت کی سزا کا فیصلہ جمعرات کو سنایا۔ یہ ضلع صوبائی دارالحکومت لاہور سے 75 کلومیٹر جنوب میں ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان میں ابھی تک کسی بھی فرد کو توہین رسالت کے الزام پر پھانسی نہیں دی گئی، تاہم اس مقدمے سے اس مسلم ریاست کے متنازعہ قوانین ایک مرتبہ پھر موضوع بحث بن گئے ہیں۔ خبررساں ادارے اے ایف پی نے انسانی حقوق کے گروپوں کے حوالے سے بتایا کہ ایسے قوانین پاکستان جیسے ملک میں انتہاپسندی کو ہوا دیتے ہیں، جہاں شہری پہلے ہی طالبان کے پے درپے دہشت گردانہ حملوں کا شکار ہیں۔
انسانی حقوق کے گروپوں کے ساتھ پاکستان میں مذہبی اقلیتیں بھی توہین رسالت کے قانون کا خاتمہ چاہتی ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ اس قانون کو ذاتی دشمنیاں نکالنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔
ہیومین رائٹس واچ کے ترجمان علی دیان حسن کا کہنا ہے کہ توہین رسالت کا قانون انتہائی خطرناک ہے اور اس کا مکمل خاتمہ ہونا چاہئے۔
آسیہ بی بی کا مقدمہ گزشتہ برس جون میں اٹھا تھا، جب کھیتوں میں کام کرتے ہوئے اسے پانی لانے کے لئے کہا گیا تھا۔ تاہم وہاں موجود مزدور مسلمان عورتوں کے ایک گروپ نے یہ کہتے ہوئے اس پر اعتراض کیا تھا کہ مسیحی ہونے کی وجہ سے وہ پانی کے گھڑے کو ہاتھ نہیں لگا سکتی۔
اس واقعے کے کچھ ہی روز بعد وہ عورتیں ایک مقامی مولوی کے پاس گئیں، جہاں انہوں نے آسیہ پر پیغمبر اسلام کے بارے میں نازیبا الفاظ کی ادائیگی کا الزام لگا دیا۔ مولوی نے پولیس کو اطلاع دی، جس پر تفتیش شروع کر دی گئی۔ آسیہ بی بی کو گرفتار کر کے پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 295C کے تحت مقدمہ قائم کر دیا گیا، جس کے تحت موت کی سزا دی جا سکتی ہے۔
اے ایف پی نے عدالتی فیصلے کا حوالہ دیا ہے، جس میں جج نوید اقبال نے آسیہ بی بی کے لئے سزائے موت کا فیصلہ سناتے ہوئے اس امکان کو ’قطعی رد’ کیا کہ ملزمہ کو جھوٹے الزام کے تحت پھنسایا گیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ سزا میں کمی نہیں ہو سکتی۔
آسیہ کے شوہر 51 سالہ عاشق مسیح نے اس فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اس مقدمے کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔ خیال رہے کہ آسیہ بی بی کے پانچ بچے ہیں، جن میں دو بیٹے اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔
واضح رہے کہ رواں برس جولائی میں فیصل آباد کی ایک عدالت میں دو مسیحی بھائیوں کو اس وقت گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا، جب انہیں ہتھکڑی لگائے عدالت سے باہر لایا جا رہا تھا۔ ان پر بھی توہین رسالت کا مقدمہ قائم تھا۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: کشور مصطفیٰ