پاکستان میں مون سون کی بارشیں، کم از کم 50 افراد ہلاک
7 جولائی 2023نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے مطابق گزشتہ ماہ سے جارہ مون سون بارشوں میں اب تک کم ا زکم 87 افراد زخمی بھی ہو چکے ہیں۔ پاکستان میں سالانہ ستر سے اسی فیصد مون سون بارشیں جون اور ستمبر کے مابین ہوتی ہیں۔ یہ بارشیں لاکھوں کسانوں کی روزی روٹی اور تقریباً دو ارب آبادی والے اس خطے میں غذائی تحفظ کے لیے بہت ضروری ہیں لیکن یہ لینڈ سلائیڈنگ اور سیلاب کا باعث بھی بنتی ہیں۔
نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے، '' پچیس جون کو مون سون کے آغاز سے لے کر اب تک پورے پاکستان میں بارشوں کے باعث پچاس اموات کی اطلاع ملی ہے۔‘‘
کم از کم آٹھ بچے ایک ساتھ ہلاک
ایمرجنسی سروس ریسکیو 1122 کے ترجمان بلال احمد فیضی کے مطابق جمعرات کو شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخوا کے شانگلہ ضلع میں مٹی کے تودے تلے دبے آٹھ بچوں کی لاشیں نکالی گئیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ امدادی کارکن ابھی بھی ملبے تک دبے دیگر بچوں کو تلاش کر رہے ہیں اور ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔
جہنم اور برفیلا پانی، پگھلتے گلیشیئرز اور پاکستان کا مستقبل
پاکستان کے دوسرے سب سے بڑے شہر لاہور میں حکام نے بتایا کہ بدھ کو ریکارڈ توڑ بارش ہوئی، جس سے سڑکیں ندیوں کی صورت اختیار کرگئیں جبکہ رواں ہفتے تقریباً 35 فیصد افراد بجلی اور صاف پانی کی سہولت سے محروم ہو گئے۔ محکمہ موسمیات نے آنے والے دنوں کے دوران ملک بھر میں مزید موسلادھار بارشوں کی پیش گوئی کی ہے۔ اسی طرح پنجاب کے بڑے دریاؤں کے مضافاتی علاقوں میں ممکنہ سیلاب سے خبردار کیا گیا ہے۔
پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثر
پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے، جو موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو پاکستان اور اس کے عوام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ گلوبل کلائیمیٹ رسک انڈیکس 2020 کے مطابق سن 1999 سے لے کر سن 2018 تک کے بیس برسوں کے دوران موسمیاتی تبدیلیوں سے، جو ممالک سب سے زیادہ متاثر ہوئے، پاکستان ان میں پانچویں نمبر پر ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے پاک بھارت آبی تنازعے پر اثرات
کئی ماہرین کا خیال ہے کہ عالمی حدت کی وجہ سے ملک کے شمال میں پگھلتے ہوئے گلشیئر ملک کے لیے خطرے کی گھنٹی ہیں۔ ماہر ماحولیات ڈاکڑ پرویز امیر کا کہنا ہے پاکستان کو اس وقت چار بڑے خطرات کا سامنا ہے، ''گلشیئرز کا پگھلنا، کوئلے کا استعمال، اسموگ اور خشک سالی۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ''کئی ساحلی علاقوں سے نقل مکانی پہلے ہی شروع ہو چکی ہے۔ اوماڑہ، پسنی، بدین، ٹھٹھہ، سجاول اور گوادر سمیت کئی علاقوں سے نقل مکانی ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ ملک کے کئی علاقے خشک سالی کے شکار بھی ہوئے ہیں۔ یہ عوامل فوری توجہ کے متقاضی ہیں۔‘‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین کو فوسل فیول سے گرم کرنے کا عمل کرہ ارض پر موسموں میں زیادہ سے زیادہ شدت پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ سائنسدان ایک عرصے سے ان خطرات کی نشان دہی کر رہے تھے۔ رائل نیدرلینڈز میٹرولوجیکل انسٹیٹیوٹ کے ماہر سوکژے فلپ کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات بھی الگ الگ خطوں کے حساب سے مختلف ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ''ایک طرح کے شدید موسم کے شکار خطوں میں بھی موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات مختلف علاقوں میں مختلف ہو سکتے ہیں۔‘‘
ا ا / ع ب (ڈی پی اے، اے ایف پی، اے پی)