پاکستان میں مہنگائی کے ہاتھوں پریشان حال عوام
15 اپریل 2011پٹرول، ڈیزل اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ صرف مہنگائی بڑھنے کا ہی نہیں بلکہ گداگری اور غربت میں اضافے کا بھی دوسرا نام ہے۔ لوگ مہنگائی کے سبب پیٹ کاٹ کاٹ کر جینے پر مجبور ہیں۔ بیشتر گھرانے ایسے ہیں، جہاں مہینے کا اکھٹا سامان لانے کا رواج دن بہ دن ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق ملک میں گزشتہ تین برسوں کے دوران مہنگائی میں دگنا اضافہ ہوا ہے۔ سب سے زیادہ اضافہ اشیائے خوردو نوش کی قیمتوں میں ریکارڈ کیا گیا ہے۔
42 سالہ سعیدہ کراچی کے علاقے کورنگی کی رہائشی ہیں۔ چھ بچوں کے ساتھ گھر چلانا اب ان کے بس سے باہر ہوگیا ہے۔ سعیدہ اپنی ضروریات قرضہ لے کر پوری کرنے پر مجبور ہیں۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اپنی دوسری سہ ماہی رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات اور بجلی مہنگی کرنے سے عوامی دباؤ بڑھے گا جبکہ مہنگائی کی شرح ساڑھے پندرہ فیصد تک بڑھنے کا خطرہ ہے۔
پاکستان کی معیشت زراعت پر انحصار کرتی ہے اور اجناس کی پیداوار میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا ہے لیکن منافع خوروں اور کمیشن ایجنٹوں کی ملی بھگت اور گذشتہ چند برسوں سے خوراک کی ایران، افغانستان اور وسط ایشیائی ریاستوں کو اسمگلنگ وہ وجوہات ہیں، جن کی وجہ سے اجناس کی قیمتیں کم ہونے کے بجائے مزید مہنگی اور عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہیں۔
پاکستان میں گزشتہ سال آنے والا سیلاب جہاں مکانات کی تباہی اور فصل کی بربادی کا باعث بنا، وہیں سیلاب کے بعد سندھ میں اجناس خصوصاً گندم کی اضافی پیداوار ہوئی۔ لیکن اس اضافی پیداوار کے باوجود حکومت سندھ کا محکمہ خوراک سندھ کے غریب عوام تک گندم مناسب قیمتوں پر پہنچانے میں ناکام رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق سندھ میں خوراک کی کمی تیئیس فیصد تک ہوگئی ہے لیکن محکمہ خوراک کے عہدےداران اس حقیقت سے چشم پوشی کرتے نظر آتے ہیں۔
غربت کے ہاتھوں مجبور عوام اور روزمرہ کی ضرورتیں روزانہ ہی کی بنیاد پر کمانے والا طبقہ مہنگائی کی اس چکی میں سب سے زیادہ پسا ہے۔ راشد بلدیہ ٹاؤن کا رہائشی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ چار ہزار روپے تنخواہ ہونے کے بعد بھلا 60 روپے کلو دودھ اور 80 روپے درجن انڈے خریدے جا سکتے ہیں کیا؟
کراچی کو ملک کی معاشی شہ رگ کہا جاتا ہے۔ ملکی معیشت میں روشنیوں کے اس شہر کو ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے لیکن بیروزگاری اور غربت میں اضافے اور سرمایہ کاری میں کمی نے یہاں روزگار کی نیت سے آئے لوگوں کو واپس جانے پر مجبور کر دیا ہے۔ گل خان بیس سال قبل یہاں آیا تھا۔ اسے آسرا تھا کہ کوئی نہ کوئی کاروبار یا چھوٹی موٹی نوکری تو اسے مل ہی جائے گی لیکن آج اتنے برسوں کی تگ و دوکے بعد بھی وہ کسی مسجد کے باہر لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہے۔
ممتاز ماہر اقتصادیات ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مہنگائی کی بڑی وجہ مرکزی بینک کی وہ پالیسیاں ہیں، جن کی وجہ سے شرح نمو سست روی کا شکار ہے اور افراط زر تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بجٹ خسارہ مسلسل بڑھ رہا ہے، جسے پورا کرنے کے لیے مرکزی بینک کرنسی نوٹ چھاپ رہا ہے اور یہ بھی مہنگائی بڑھنے کی اہم وجہ ہے۔
ڈاکٹر شاہد حسن نے ورلڈ فوڈ پروگرام کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں دکانوں پر غذائی اجناس موجود تو ہیں مگر لوگوں کی قوت خرید سے باہر ہیں، لہٰذا وہ پیٹ بھر کر کھانا بھی نہیں کھا سکتے۔ ڈاکٹر صدیقی نے یہ بھی بتایا کہ یکم جولائی سے حکومت ادویات پر بھی پندرہ فیصد اصلاحی جنرل ٹیکس لگانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے، جس کے بعد لوگوں کے لیے علاج معالجہ بھی محال ہوجائے گا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ کراچی جیسے شہر میں معاشی عوامل اپنی جگہ لیکن دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ اور امن و امان کی خراب صورتحال کے باعث بھی بیرونی سرمایہ کاری یہاں کم ہوتی جا رہی ہے۔ لوگ اپنا سرمایہ غیر محفوظ سمجھنے لگے ہیں جبکہ جو سرمایہ دار پہلے سے یہاں موجود ہیں، وہ بھی اپنے اثاثے بیرون ملک منتقل کر رہے ہیں۔
پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہےاور تمام تر بد انتظامیوں کے باجود بھی ملک میں غذا کی کوئی قلت نہیں ہے لیکن حکمرانوں کی عیاشیوں اور بدعنوانی کے دیمک نے عوام کو مہنگائی کا عذاب مسلسل جھیلنے پر مجبورکر رکھا ہے۔
رپورٹ: رفعت سعید، کراچی
ادارت: امجد علی