1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں نئے جوہری بجلی گھروں کی تعمیر، ’گھاٹے کا سودا‘‘

شادی خان سیف، کراچی11 جنوری 2014

پاکستان میں چین کی مالی و تکنیکی معاونت سے نئے جوہری بجلی گھروں کی تعمیر کا آغاز ہوچکا ہے۔ سماجی حلقوں میں البتہ اس پیش رفت کو خطرات میں گِھرنے اور طویل المدتی گھاٹے کے سودے سے تعبیر کیا جارہا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Aoxq
Dr. Pervez Hoodbhoy
تصویر: DW/Shadi Khan Saif

نومبر میں جب وزیر اعظم نواز شریف نے کراچی میں کے ٹو اور کے تھری نامی جوہری بجلی گھروں کے ان منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھا تو بظاہر اعلیٰ حکومتی حلقوں کو قبل از وقت اطلاع نہیں تھی۔ ماحول دوست حلقے الزام عائد کر رہے ہیں کہ یہ منصوبے بغیر کسی مشاورت اور احتیاطی تدابیر کے شروع کر دیے گئے ہیں۔

سندھ کی ساحلی پٹی میں ماہی گیروں کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیم پاکستان فشر فوک فورم، مزدوروں کے حقوق کی علمبردار تنظیم پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار لیبر، ایجوکیشن اینڈ ریسرچ اور کئی دیگر تنظیموں نے جوہری بجلی گھروں کے ان نئے منصوبوں کے خلاف ملک گیر مہم چلانے کا اعلان کر دیا ہے۔ بائیں بازو سے وابستہ سماجی کارکن اس مبینہ جلد بازی میں کیے گئے فیصلوں کو نواز حکومت کی غیر جمہوری سوچ کا غماز ٹھہرا رہے ہیں۔

دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ ممالک توانائی کے حصول کے اس خطرناک طریقے کو چھوڑ رہے ہیں
دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ ممالک توانائی کے حصول کے اس خطرناک طریقے کو چھوڑ رہے ہیںتصویر: AP

کراچی میں اس سلسلے کی پہلی بیٹھک میں ممتاز سائنس دانوں ڈاکٹر پرویز ہود بھائی اور ڈاکٹر اے ایچ نیئر کو مدعو کرکے ان کی ماہرانہ رائے بھی لی گئی۔

ڈاکٹر پرویز کے بقول دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ ممالک توانائی کے حصول کے اس خطرناک طریقے کو چھوڑ رہے ہیں جبکہ پاکستان اس کے برعکس، ملک کے سب سے بڑے شہر کے پاس دو جوہری بجلی گھر قائم کرنے جارہا ہے، جس میں ان کے بقول عین ممکن ہے کہ دہشت گردی یا چھوٹی سے بھی تکنیکی یا انسانی غفلت لاکھوں انسانی جانوں کے ضیاع کا سبب بن سکتی ہے: ’’جتنی بھی حفاظتی تدابیر آپ اختیار کرلیں، جتنی بھی احتیاط آپ کریں، آپ کبھی بھی سو فیصد یقین نہیں کرسکتے کہ حادثہ نہیں ہوگا ، فوکوشیما کی ایک واضح مثال ہمارے سامنے ہے۔‘‘

ہودبھائی کے بقول چین کی جانب سے ان منصوبوں کے لیے ملنے والا ساڑھے چھ ارب ڈالر کا قرضہ دراصل بیجنگ کی اس اقتصادی منصوبہ بندی کا حصہ ہے، جس کے تحت وہ عالمی سطح پر خود کو نیوکلیئر پاور انڈسٹری میں داخل کرنا چاہتا ہے۔ واضح رہے کہ چین کے تیار کردہ نیوکلیئر پلانٹس پاکستان کے علاوہ کسی دوسرے ملک میں قائم نہیں ہیں۔ بھارت کو نیوکلیئر سپلائر گروپ سے، جس میں امریکا، روس اور فرانس جیسے ممالک شامل ہیں، یہ ٹیکنالوجی حاصل کرنے کی اجازت حاصل ہے جبکہ پاکستان کو نہیں۔

ماہرین، دانشوروں اور سماجی کارکنوں کی اس بیٹھک میں ماضی کے جوہری حادثوں کا ذکر بھی چھیڑا گیا اور اس بات پر کافی زور رہا کہ آخر قابل تجدید ذرائع توانائی کے حصول پر توجہ کیوں نہیں دی جاتی۔

نیوکلیئر سائنٹسٹ ڈاکٹر اے ایچ نیئر کی رائے میں کے ٹو اور کے تھری منصوبے کے ماحول پر پڑنے والے اثرات جیسا کہ ری ایکٹر کو ٹھنڈا کرنے لیے استعمال ہونے والے پانی کے نکاس اور تابکاری کے ممکنہ اخراج سے نمٹنے کی حکمت عملی موجود ہی نہیں ہے۔ واضح رہے کہ اسلام آباد حکومت کا محض کراچی کے اطراف میں گیارہ گیارہ سو میگا واٹ کے دو نیوکلیئر پاور ری ایکٹر کا ہی منصوبہ نہیں بلکہ ذرائع کے مطابق سال 2030 تک ملک کے اندر 8800 میگا واٹ جوہری بجلی کے حصول کے منصوبے کے تحت مختلف مقامات پر کئی ایٹمی بجلی گھر قائم کرنے کا منصوبہ ہے۔

’’آپ کبھی بھی سو فیصد یقین نہیں کرسکتے کہ حادثہ نہیں ہوگا ، فوکوشیما کی ایک واضح مثال ہمارے سامنے ہے‘‘
’’آپ کبھی بھی سو فیصد یقین نہیں کرسکتے کہ حادثہ نہیں ہوگا ، فوکوشیما کی ایک واضح مثال ہمارے سامنے ہے‘‘تصویر: Reuters

ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کے ٹو اور کے تھری منصوبے کے نگران منہاج اظفر کا کہنا تھا کہ نئے بجلی گھروں کی تعمیر سے قبل چھ برس تک مشاورت کی گئی ہے اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا جاچکا ہے۔

دوسری جانب ایٹمی توانائی کمیشن کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر نیئر نے کہا کہ متعلقہ ادارے نے کراچی کے موجودہ کینپ جوہری بجلی گھر کے پاس 1945 میں اٹھنے والی سونامی لہر کو اپنی نئی منصوبہ بندی میں ملحوظ خاطر نہیں رکھا ہے۔ انہوں نے اس قومی ادارے کے افسران کے غیر سنجیدہ رویے کی مثال بھی پیش کی: ’’وہ کہنے لگے کہ جاپان میں تو لکڑی کے گھر ہوتے ہیں مگر کراچی میں جوہری تابکاری کا اخراج ہوگا تو نقصان زیادہ نہیں ہوگا کیونکہ کنکریٹ کے مکانات ہیں اور لوگوں سے گھروں پر رہنے کا کہہ دیا جائے گا۔‘‘


منتظمین کے مطابق کراچی سے شروع کی گئی جوہری بجلی گھر مخالف اس تحریک کے اگلے حصے میں ملک کے تیس سے زائد شہروں میں جاکر جوہری بجلی گھروں کی تعمیر کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے کا آغاز کیا جائے گا۔