پاکستان میں نیٹو حملہ، وائٹ ہاؤس کا معذرت سے انکار
2 دسمبر 2011مختلف خبر ایجنسیوں کی طرف سے واشنگٹن سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق اس حوالے سے وائٹ ہاؤس کے ترجمان جے کارنی نے اس بات پر زور دیا کہ ابھی اس سلسلے میں چھان بین جاری ہے کہ پاکستانی فوج کے یہ 24 اہلکار کن حالات میں ہلاک ہوئے۔
جے کارنی نے صحافیوں کو بتایا، ’’وائٹ ہاؤس، صدر اوباما اور امریکی عوام کی طرف سے میں پاکستان کے ساتھ اس واقعے میں کئی انسانی جانوں کے ضیاع پر افسوس اور تعزیت کا اظہار کر چکا ہوں۔ یہ ایک المناک واقعہ تھا۔‘‘ تاہم اسی واقعے کے بارے میں وائٹ ہاؤس کے ترجمان اور دیگر امریکی حکام کی طرف سے کسی بھی قسم کی معذرت کے سلسلے ہچکچاہٹ سے کام لیا جا رہا ہے۔
اس سے قبل اسی ہفتے پیر کے دن بھی وائٹ ہاؤس کی طرف سے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے جے کارنی نے یہی کہا تھا کہ گزشتہ ویک اینڈ پر پیش آنے والا یہ واقعہ، جس پر پاکستان میں غم و غصہ پایا جاتا ہے اور جس نے اسلام آباد حکومت کو امریکہ کے ساتھ اپنے اتحاد پر نئے سرے سے غور کرنے پر مجبور کر دیا، ایک ’ایسا المیہ ہے جس پر امریکہ میں بڑے سنجیدہ رد عمل کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے‘۔
اسی موضوع پر اپنی بریفنگ میں جمعرات کو بھی جے کارنی نے کہا کہ امریکہ کو ’ان بہادر پاکستانی سپاہیوں کی موت پر گہرا افسوس ہے جو اپنی جانیں گنوا بیٹھے‘۔
امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے اپنی کل جمعرات کی اشاعت میں لکھا تھا کہ واشنگٹن میں محکمہء خارجہ کے حکام نے اس بارے میں لابی کرنے کی کوشش کی تھی کہ صدر باراک اوباما کو اپنے ایک بیان میں پاکستانی قوم سے مخاطب ہوتے ہوئے اس واقعے پر افسوس کا اظہار کرنا چاہیے تاکہ اس واقعے کی وجہ سے واشنگٹن کے پاکستان کے ساتھ انتہائی اہم اتحادی کے طور پر بنیادی نوعیت کے روابط مزید متاثر نہ ہوں۔
تاہم اس اخبار نے واشنگٹن انتظامیہ کے ذرائع کا بغیر نام لیے حوالہ دیتے ہوئے یہ بھی لکھا تھا کہ محکمہء خارجہ کی اس غیر رسمی طور پر وائٹ ہاؤس تک پہنچائی جانے والی تجویز پر ملکی محکمہء دفاع یعنی پینٹاگون کی طرف سے تنقید کی گئی تھی۔ نیو یارک ٹائمز کے مطابق اس بارے میں یہ کہا گیا تھا کہ دیگر اعلیٰ امریکی اہلکاروں کی طرف سے، جن میں وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن بھی شامل ہیں، اب تک جو بیانات دیے گئے ہیں، وہ کافی ہیں۔
نیو یارک کے اس جریدے کے مطابق اس بارے میں امریکی انتظامیہ کے چند ارکان نے صدر اوباما کی طرف سے پاکستان سے کسی بھی طرح کی ممکنہ معذرت پر یہ کہتے ہوئے تشویش ظاہر کی تھی کہ ایسے کسی بھی اقدام کو ری پبلکن ارکان کانگریس خود صدر اوباما کے خلاف استعمال کریں گے اور یہ بات اگلے سال ہونے والے صدارتی الیکشن سے قبل صدر اوباما کے خلاف جائے گی۔
پاکستانی حکومت اور عوام سے باقاعدہ معذرت کے بارے میں جب وائٹ ہاؤس کے ترجمان کارنی سے ایک سوال پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ حکام کی واقعے کی جو چھان بین کر رہے ہیں، وہ ابھی اپنے ابتدائی مراحل میں ہے۔ جے کارنی کے بقول، انسانی جانوں کے اس افسوسناک ضیاع پر تعزیت کا اظہار کرنا سچے جذبات کی عکاسی کرتا ہے اور اس کا تعلق امریکہ کے اس اہم تعلق اور رشتے سے ہے جو کہ واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان پایا جاتا ہے۔
اسلام آباد کا دعویٰ ہے کہ نیٹو کا فضائی حملہ اس کے فوجیوں کے خلاف ایک پاکستانی چیک پوسٹ پر کی جانے والی بلا اشتعال کارروائی تھی۔ اس بارے میں وال اسٹریٹ جرنل نے افغان حکومت اور مغربی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا تھا کہ نیٹو اور افغان حکام نے فضائی مدد پاکستان کی طرف سے مبینہ طور پر فائرنگ کی زد میں آنے کے بعد طلب کی تھی۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: عابد حسین