1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں ٹرانس جینڈر افراد کے لیے خصوصی ہاٹ لائن متعارف

1 اکتوبر 2022

پاکستان میں ٹرانس جینڈر افراد کے لیے ایک خصوصی ہاٹ لائن متعارف کرائی گئی ہے، جس پر وہ ہراساں کیے جانے یا تشدد کی شکایات درج کرا سکیں گے۔

https://p.dw.com/p/4Hcwv
Pakistan | LGBT+ | Transgender Bewegung
تصویر: Arif Ali/AFP

پاکستان میں ٹرانس جینڈر افراد کو امتیازی سلوک اور ہراساں کیے جانے سے بچائے جانے کے لیے ایک ہاٹ لائن شروع کی گئی ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کے مشیر سلمان صوفی نے اپنی ایک ٹویٹ میں اس بات کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ ٹرانس جینڈر افراد کو امتیازی سلوک اور ہراسانی سے بچانے کے لیے جس اقدام کا انتظار تھا وہ کر دیا گیا ہے، یہ ہاٹ لائن اب لائیو ہے۔

انہوں نے مطلع کرتے ہوئے کہا کہ اس ہاٹ لائن کے ذریعے ٹرانس جیںڈر افراد اعلیٰ پولیس افسران اور وزارت انسانی حقوق کو اپنی شکایات درج کروا سکیں گے۔

پاکستانی معاشرے میں ٹرانس جینڈر افراد کھلے دل سے قبول نہیں کیا جاتا، خصوصاﹰ ملک کے قدامت پسند علاقوں میں ان کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

تشدد کے خاتمے کے لیے سرگرم ايک پاکستانی ٹرانس جینڈر

ٹرانس جینڈر افراد کو اکثر جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے، ان پر پرتشدد حملے کیے جاتے ہیں اور ایسے حملوں میں کئی ٹرانس جینڈر افراد قتل بھی ہو چکے ہیں۔ وہ امتیازی سلوک سے بچنے کے لیے اسکولوں میں داخلہ لینے سے بھی ہچکچاتے ہیں۔

پاکستان میں ٹرانس جینڈر افراد کی ایک ترجمان الماس بوبی نے ٹیلی فونک گفتگو کرتے ہوئے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ انہیں خوشی ہے یہ ہاٹ لائن شروع کر دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا، ''پورے ملک میں ٹرانس جینڈر افراد کو ہراساں کیے جانے کے زیادہ تر واقعات پولیس کی جانب سے ہی ہوتے ہیں۔ انہیں مارا پیٹا جاتا ہے یا گرفتار کر لیا جاتا ہے جب ہمارے فون چھین لیے جائیں گے تو ہم اس ہاٹ لائن پر کیسے کال کریں گے؟ جب ہمیں شادی کی محفلوں سے ایسے پکڑا جاتا ہے جیسے ہم مجرم یا ڈاکو ہوں تو ہم کہاں پرفارم کریں اور کیسے کمائیں؟ سب جانتے ہیں کہ ہمیں سب سے زیادہ ہراساں کون کرتا ہے۔ ٹرانس جینڈر افراد کو پولیس سے ہی سب سے زیادہ خطرہ لاحق ہے اور وہ اپنے تحفظ کے لیے انہیں ہی فون کریں؟‘‘

شناخت اور حقوق کے لیے ٹرانس جینڈرز کی سیاسی لڑائی

یہ ہاٹ لائن ایسے وقت میں شروع کی گئی ہے جب حکومت 2018 میں منظور کردہ ٹرانس جینڈر حقوق کے بل میں ایک ترمیم منظور کرنے کے لیے کوشاں ہےجس سے ٹرانس لوگوں کو پہلے سے جاری کردہ سرکاری دستاویزات، تعلیمی سرٹیفکیٹس اور قومی شناختی کارڈز کے لیے اپنی صنفی شناخت کا انتخاب کرنے کی اجازت ملے گی۔ لیکن مجوزہ ترامیم ملک میں تنازعہ کا باعث بنی ہیں۔ ملک میں مذہبی سیاسی جماعتیں اور سخت گیر علماء نے اس کی مخالفت کی ہے۔

اگرچہ پاکستان نے حالیہ برسوں میں ٹرانس جینڈر افراد کے حقوق کے حوالے سے کچھ پیش رفت کی ہے تاہم انسانی حقوق کے ماہرین کا کہنا ہے کہ سماجی سطح پر ٹرانس جینڈر افراد کی پہچان کو یقینی بنانے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ بوبی کا اندازہ ہے کہ پاکستان میں تقریباً 10,000 ٹرانس لوگ رہتے ہیں لیکن ان اعداد و شمار پر بھی مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔

ر ب/ش ح (اے پی)