پاکستان میں ٹیکس نہ دینے پر دو لاکھ دس ہزار سم کارڈز بلاک
5 جولائی 2024سن 2022 میں 240 ملین سے زیادہ کی آبادی والے اس ملک میں صرف 5.2 ملین افراد نے اپنے انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرائے تھے۔ حکام کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے اپریل میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کو دو لاکھ دس ہزار صارفین کے سم کارڈز کے کنکشن بلاک کرنے کے احکامات بھیجے تھے۔ سم کارڈز بلاک ہونے کے بعد تقریباً 62 ہزار افراد نے اپنے ٹیکس گوشوارے جمع کرائے اور ان کے سم کارڈز فعال کر دیے گئے۔
ایف بی آر کے تعلقات عامہ کے اہلکار بختیار محمد نے کہا ہے، ''ہم نے ان لوگوں کی سمیں کھول دی ہیں، جنہوں نے اپنا ٹیکس ادا کیا ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''کوئی بھی رضاکارانہ طور پر سامنے نہیں آتا اور ٹیکس ادا نہیں کرتا۔ ہمیں لوگوں کے لیے ٹیکس ادا کرنے کے طریقے بنانا ہوں گے۔‘‘
ملکی ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے مطابق پاکستان میں 192 ملین سے زیادہ سیل فون صارفین ہیں، جن کو چار ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیاں سروس فراہم کرتی ہیں۔ پاکستان میں سم کارڈز کے حصول کے لیے قومی شناختی کارڈ نمبر فراہم کرنا لازمی ہوتا ہے۔
ایک ٹیلی کمیونیکیشن اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ''ٹیلی کام سروسز تک رسائی ایک بنیادی انسانی حق ہے اور بہت سی دیگر بنیادی خدمات کی طرح ضروری ہے، جس میں معلومات، تعلیم اور ہنگامی خدمات تک رسائی شامل ہیں۔‘‘
پاکستان: 'بجٹ عوام کے لیے خطرے کی گھنٹی‘
اس اہلکار کا مزید کہنا تھا، ''ہم حکام کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں، انہیں اس بات پر راضی کر رہے ہیں کہ وہ ٹیکس کی وصولی بڑھانے کے لیے دیگر ٹیکنالوجیز کا استعمال کریں کیونکہ اس طرح کے اچانک حکم نامے اہم خدمات کی فراہمی میں خلل ڈال سکتے ہیں۔‘‘
جنوبی ایشیائی ملک پاکستان اپنی انتہائی کم ریاستی آمدنی کی بنیاد کو بڑھانے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے لیکن اس ملک کی بڑی حد تک غیر ریکارڈ شدہ معیشت اس کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔
اسلام آباد حکومت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے مزید قرضوں کے لیے زور دے رہی ہے تاکہ معیشت کو چلایا جا سکے لیکن قرض دہندگان چاہتے ہیں کہ پاکستان اپنی ریاستی آمدنی کے وسائل کو متنوع بنانے کے لیے مزید اقدامات کرے۔
ڈیجیٹل حقوق کے لیے سرگرم کارکن فریحہ عزیز نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ''یہ ایک مضحکہ خیز اقدام ہے۔ ہر ایک جس کے پاس سم کارڈ ہے، وہ اتنا نہیں کماتا کہ اسے ٹیکس ادا کرنے والوں میں شمار کیا جائے۔‘‘
سم کارڈ بلاک کرنے کے حوالے سے ان کا تنقید کرتے ہوئے کہنا تھا، ''لوگوں کی روزی روٹی ان کے فون سے جڑی ہوئی ہے، یہ حد سے تجاوز ہے۔‘‘
چار ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیوں نے جون میں وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کو لکھے گئے ایک خط میں متنبہ کیا تھا کہ ٹیکس جمع نہ کرانے والے صارفین کے سم کارڈز بلاک کرنے جیسے اقدامات ''غیر عملی اور ناقابل عمل‘‘ہیں اور اس طرح غیر ملکی سرمایہ کار بھی خوفزدہ ہو جائیں گے۔
اسلام آباد کے ایک 66 سالہ تاجر توصیف گیلانی کے مطابق بھی یہ نیا حکومتی اقدام ''حد سے تجاوز‘‘ کرتا جا رہا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا، ''میں جو بھی آمدنی کماتا ہوں، یہ میری ذمہ داری ہے کہ میں معاشرے میں اپنا حصہ ڈالوں۔ تاہم سم کارڈز کو بلاک کرنا ناانصافی ہے۔ یہ اظہار رائے اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔‘‘
ا ا / م م (اے ایف پی)