1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں پوسٹ مارٹم کے نظام کی زبوں حالی

شازیہ محبوب
19 جنوری 2025

پاکستان میں پوسٹ مارٹم کا شعبہ حکومتی عدم توجہی کے باعث سنگین مسائل کا شکار ہے۔ ماہرین کے مطابق پوسٹ مارٹم کی منصفانہ انداز میں تکمیل شفاف تحقیقات اور انصاف کی فراہمی کے لیے ایک اہم ریاستی ذمہ داری ہے۔

https://p.dw.com/p/4pGzI
پوسٹ مارٹم ٹیبل پر موجود یک لاش
پاکستان میں پوسٹ مارٹم کا شعبہ حکومتی عدم توجہی کے باعث سنگین مسائل کا شکار ہے۔تصویر: picture-alliance/dpa/H. Link

پوسٹ مارٹم کا عمل کسی شخص کی غیر فطری موت کی وجوہات تلاش کر کے مجرموں کو قانون کے کٹہرے میں لانے کے لیے انتہائی اہم کردار ادا کرتا ہے، اور اسے دنیا بھر میں جرائم کی روک تھام کے ذریعے امن و امان کے قیام کے لیے ناگزیر سمجھا جاتا ہے، لیکن پاکستان میں یہ اہم شعبہ مسلسل حکومتی عدم توجہی کا شکار ہے۔

انصاف کی فراہمی کے لیے پوسٹ مارٹم رپورٹ کی اہمیت

ایڈووکیٹ سپریم کورٹ ساجد علی شاہ کے بقول جب کسی جرم کی تفتیش کی جاتی ہے تو یہ ضروری ہوتا ہے کہ ملزمان کی شناخت کی جائے اور موقع پر موجود شواہد اور عینی شاہدین کی تفصیلات پر غور کیا جائے: ''زہر دیے جانے کے کیسز میں پوسٹ مارٹم رپورٹ ہی موت کا اصل سبب بتاتی ہے۔ اسی طرح مسخ شدہ، جلی ہوئی، زیادتی کا شکار یا پانی میں ڈوبی لاشوں کے کیسز میں بھی پوسٹ مارٹم کے ذریعے موت کی اصل وجہ معلوم کی جا سکتی ہے۔‘‘ یہ تمام عوامل بتاتے ہیں کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ جرم کی تفتیش میں فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے اور کیس کے فیصلے میں اہمیت رکھتی ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر حکیم خان آفریدی، چیئرمین فارنزک میڈیسن خیبر میڈیکل کالج پشاور کے مطابق ایک کمزور فرانزک نظام نہ صرف انصاف کے عمل کو متاثر کرتا ہے بلکہ مجرموں کو سزا سے بچنے کا موقع دیتا ہے اور عوام کا ریاست پر اعتماد ختم کر دیتا ہے: ''یہ ناکامی افراد کو خود سےانصاف کرنے پرمجبور کرتی ہے، جس سے لاقانونیت میں اضافہ ہوتا ہے اور شہریوں اور ریاست کے درمیان تعلقات مزید خراب ہو جاتے ہیں۔‘‘

پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کا شعبہ ایمرجنسی
اسلام آباد کے ہسپتالوں میں فارنزک لیب کی عدم موجودگی کے باعث پوسٹ مارٹم کے بعد نمونے پولیس اہلکار کے ذریعے لاہور فارنزک لیب بھجوائے جاتے ہیں،تصویر: M. Asim/DW

پاکستان میں پوسٹ مارٹم نظام کی زبوں حالی کی وجوہات

پروفیسر ڈاکٹر حکیم خان آفریدی، چیئرمین فارنزک میڈیسن خیبر میڈیکل کالج پشاور نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میڈیکولیگل آپریشنز عالمی سطح پر اٹھارہویں صدی سے ریاستی ذمہ داری کے طور پر قائم ہیں مگر پاکستان میں یہ شعبہ مسلسل نظر انداز ہو رہا ہے۔

وہ مزید کہتے ہیں، ''پوسٹ مارٹم کی درستگی کے لیے خصوصی مہارت کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن پاکستان میں معیاری طریقہ کار اور وقف شدہ فارنزک ٹیموں کی شدید کمی ہے۔ اس کے علاوہ حکومت کی غفلت اور مراعات کی عدم فراہمی پیشہ ور افراد کو اس شعبے میں کیریئر بنانے سے مزید روک رہی ہے۔‘‘

 پروفیسرآفریدی کے مطابق پاکستان میں پوسٹ مارٹم عموماً صرف موت کے سرٹیفکیٹ تک محدود رہ جاتے ہیں  جبکہ دنیا بھر میں جامع پوسٹ مارٹم تحقیقات انصاف کے نظام میں مدد فراہم کرتی ہیں۔

اسلام آباد میں قائم پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) کے میڈیکل کالج ڈیپارٹمنٹ کے سابق ڈائریکٹر سیف الرحمان نے اس بات پر زور دیا کہ موت کی وجہ کا درست تعین انتہائی اہم ہے، اور غیر تربیت یافتہ طبی افسران پوسٹ مارٹم کرتے وقت غلطیوں کا شکار ہو سکتے ہیں، جو قانونی کارروائیوں پر گہرے اثرات ڈال سکتی ہیں۔

 فارنزک رپورٹس کے معیار پر سوالات

پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) میں اس شعبے سے  وابستہ  ایک سینئر اہلکار نے انکشاف کیا کہ ہسپتال میں میڈیکولیگل آپریشنز کے لیے کوئی علیحدہ ادارہ موجود نہیں اور اگر کوئی  اس بارے میں آواز اٹھائے تو اسے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس اہلکار نے مزید انکشاف کیا کہ پوسٹ مارٹم کے دوران سیاسی دباؤ کے تحت سنگین کیسز کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے، جبکہ معمولی کیسز کو سنگین بنا دیا جاتا ہے۔

پمز میں اس شعبے سے وابستہ  ایک اورسینئر ڈاکٹر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اکثر کیسز ایسے ہوتے ہیں جن میں موت کی وجہ کا تعین کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ ایسی صورت میں سینئر ڈاکٹروں سے مشورہ کیا جاتا ہے  لیکن وہ بھی جنرل فزیشن ہوتے ہیں اور فارنزک یا ٹاکسیکولوجی کے ماہر نہیں ہوتے۔ مزید یہ کہ ہسپتال میں فارنزک لیب کی عدم موجودگی کے باعث پوسٹ مارٹم کے بعد نمونے پولیس اہلکار کے ذریعے لاہور فارنزک لیب بھجوائے جاتے ہیں، جو مختلف طریقوں سے میڈیکل رپورٹ پر اثر انداز ہو تے ہیں۔

ایک لاش کا پوسٹ مارٹم کیا جا رہا ہے۔
پوسٹ مارٹم کا عمل کسی شخص کی غیر فطری موت کی وجوہات تلاش کر کے مجرموں کو قانون کے کٹہرے میں لانے کے لیے انتہائی اہم کردار ادا کرتا ہے۔تصویر: picture-alliance/dpa

پوسٹ مارٹم کی صورتحال پر باضابطہ تبصرہ حاصل کرنے کے لیے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے متعلقہ افراد سے رابطہ کیا گیا لیکن کوئی جواب موصول نہ ہو سکا۔

اصلاحات کی کوششیں

اس شعبے سے تعلق رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ اسپتالوں میں فارنزک یا ٹاکسیکولوجی ماہرین کے لیے کوئی مخصوص عہدہ موجود نہیں ہے اور نہ ہی طبی پیشہ ور افراد اس شعبے میں مہارت کے محدود دائرہ کار اور اس کی کم طلب کی وجہ سے اس میں اپنا کیریئر بناتے ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں گزشتہ سال سے میڈیکولیگل آپریشنز میں اصلاحات کے لیے ایک کیس زیرِ غور ہے، جس میں پمز کے میڈیکل کالج ڈیپارٹمنٹ کے سابقہ ڈائریکٹر سیف الرحمان بھی فریق ہیں۔

ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے سیف الرحمان نے بتایا، ''میں نے 2017ء  سے 2023ء تک پمز کے میڈیکل کالج ڈیپارٹمنٹ میں اصلاحات لانے کے لیے اپنی بھرپور کوششیں کیں۔ اپریل 2023ء میں میڈیکل کالج ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ کی حیثیت سے کرمنل جسٹس کوآرڈینیشن کمیٹی کے اعلیٰ سطحی اجلاس میں فوجداری نظام میں اصلاحات کی ضرورت پرزور دیا، تاہم کوآرڈینیشن کمیٹی کے اجلاس کے فوراﹰ بعد، مجھے میڈیکل کالج ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔‘‘

پمز ہسپتال کا پوسٹ مارٹم سیکشن
ماہرین کا کہنا ہے کہ اسپتالوں میں فارنزک یا ٹاکسیکولوجی ماہرین کے لیے کوئی مخصوص عہدہ موجود نہیں ہے اور نہ ہی طبی پیشہ ور افراد اس شعبے میں مہارت کے محدود دائرہ کار اور اس کی کم طلب کی وجہ سے اس میں اپنا کیریئر بناتے ہیں۔تصویر: M. Asim/DW

اسلام آباد کے دیگر ہسپتالوں کی صورتحال بھی پمز سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ وہاں موجود افراد کا کہنا تھا کہ بڑے  ہسپتالوں میں پوسٹ مارٹم کی سہولت تو موجود ہے، لیکن میڈیکولیگل آپریشنز کے لیے فارنزک یا ٹاکسیکولوجی ماہرین دستیاب نہیں اور یہ کام عام ڈاکٹروں کی ٹیم انجام دیتی ہے۔

 پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل سے رابطہ کرنے پر ڈی ڈبلیو کو بتایا گیا کہ کونسل کے پاس رجسٹرڈ ڈاکٹرز کی تعداد تو موجود ہے  لیکن فارنزک یا ٹاکسیکولوجی کے ماہرین کی تعداد دستیاب نہیں ہے۔