ڈیجیٹلائزیشن ترسیلات زر میں اضافہ لا سکتی ہے، ماہرین
24 مارچ 2023اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً 200 ملین لوگ بیرونی ممالک سے اپنے گھروں میں پیسے بھجواتے ہیں، جس سے تقریباً 800 ملین لوگ مستفید ہوتے ہیں۔ ورلڈ بینک کے مطابق گزشتہ برس دنیا بھر میں ترسیلات زر 626 بلین ڈالر تک رہی ۔ یہ رقوم اکثر ترقی پذیر ممالک کی اقتصادی حالت میں بہتری کے لیے انتہائی اہم سمجھی جاتی ہیں۔ پاکستان کا شمار بھی انہی ممالک میں ہوتا ہے، جہاں کے شہری ہر سال دنیا بھر سے بڑے پیمانے پر اپنے گھر والوں اور عزیزو اقارب کو اربوں ڈالر کے برابر رقوم بھجواتے ہیں۔
تاہم سیاسی اوراقتصادی بحران کے شکار پاکستان کے لیے رواں برس کا آغاز غیر ملکی ترسیلات زر کے حوالے سے مایوس کن ثابت ہوا۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی طرف سے وطن بھجوائی گئی ترسیلات زر کا بہاؤ تقریباﹰ تین سال کی کم سطح پر آ گیا۔ جنوری 2023ء میں سرکاری چینلز کے ذریعے 2 بلین ڈالر سے بھی کم رقوم پاکستان بھجوائی گئی تھیں۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے اعداد و شمار کے مطابق، ''جنوری کے ماہ میں ترسیلات زر 1.89 بلین ڈالر ریکارڈ کی گئیں، جو گزشتہ سال کے اسی مہینے (جنوری 2022) کے مقابلے میں% 13 جبکہ دسمبر 2022 کے مقابلے میں %10 کم ہیں۔
اقصاری امور کے ماہر تجزیہ کار ڈاکٹر فرخ سلیم کا کہنا ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی طرف سے بھجوائی گئی رقوم تاریخی طور پر پاکستانی معیشت کے لیے ایک لائف لائن کا کردار ادا کرتی آئی ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اب حکومتی پالیسیوں کے نتیجے میں اور انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت کم جبکہ اوپن مارکیٹ میں زیادہ ہونے کی وجوہات ترسیلات زر میں کمی وجہ بنی ہیں۔
اس بارے میں مزید وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر فرخ سلیم کا کہنا تھا، اگر ایک آدمی بیرون ملک سے بینکنگ چینل کے ذریعے سے پانچ سو ڈالر کی رقم بھی بھجواتا ہے، تو اسے ایک ڈالر کے لیے دو سو اسی روپے کا ایکسچینج ریٹ ملے گا، جبکہ وہ یہی رقم ہنڈی یا حوالے کے ذریعے سے بھجوائے گا، تو اسے ایک ڈالر کے بدلے تین سو روپے کا ایکسچینج ریٹ ملے گا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے اس حوالے سے دکھاوے کے کچھ اقدامات تو کیے ہیں لیکن صورتحال میں بہتری لانے کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا۔
ترسیلات زر کا مہنگا نظام
تاہم دنیا بھر میں تقریبا ایک ارب افراد کی برادری سے جڑا ترسیلات زر کا یہ نظام خاصہ مہنگا ہے۔ دنیا کے ہر کونے سے رقوم کی لین دین کے سینکڑوں اور لاکھوں مواقع اس کاروبار کو مالی صنعت کے لیے پرکشش بناتے ہیں۔ دنیا بھر میں اس طرح کے لین دین میں بھجوائی جانے والی کل رقوم کا اوسطا چھ اعشاریہ پانچ فیصد حصہ فیس کی مد میں منہا کر لیا جاتا ہے۔ مشرقی افریقہ کے بعض ممالک میں فیس کی یہ شرح نو اعشاریہ چار فیصد تک جاتی ہے۔ اس حساب سے اگر ایک سو ڈالر کی رقم بیرون ملک سے بھجوائے جائے تو وصول کنندہ کو نوے اعشاریہ چھ ڈالر ہی ملیں گے۔ تاہم کافی عرصے سے ان فیسوں کی شرح میں کمی آرہی ہے۔
ڈیجیٹل سروسز کو استعمال کرتے ہوئے فیس کا سب سے کم ریٹ تین اعشاریہ پانچ فیصد کے قریب ہوتا ہے۔ تاہم ورلڈ بینک کے مطابق اس طرح سے صرف ایک فیصد ترسیلات زر ہی کی جاتی ہیں۔
اس کے باوجود ڈیجیٹل سروسز کے استعمال نے متعدد افریقی ممالک میں افراط زر کی صورتحال کو خاصہ بہتر بنایا ہے۔ خاص کر کورونا کی عالمی وبا کے دوران بہت سے لوگوں نے ڈیجیٹل ذریعوں سے رقوم کی لین دین کو بہت اہمیت دی اور مستقل اپنا لیا۔
ڈاکٹر فرخ سلیم کا کہنا ہے کہ پاکستان اب کسی حد تک ڈیجٹلائزیشن کی طرف آیا ہے، لیکن اپنے پڑوسی ممالک چین، بھارت اور بنگلہ دیش سے ابھی بھی بہت پیچھے ہے۔ ڈاکٹر فرخ سلیم کے مطابق، دنیا بھر سے پاکستانی اب روایتی بینکنگ کے ذریعوں پر انحصار کم کر رہے ہیں، ایسے میں حکومت کو چاہیے کہ وہ انہیں آن لائن ایسے زریعے مہیا کرے کہ وہ رقوم کی ترسیل کے ایک شفاف نظام سے جڑے رہیں۔
تین فیصد کے راستے پر
اقوام متحدہ نے اپنے پائیدار ترقی کے اہداف میں ایک ہدف یہ بھی مقرر کیا ہے کہ 2030ء تک، ترسیلات زر کے لین دین کے لیے فیس کی شرح زیادہ سے زیادہ تین فیصد ہونی چاہیے۔
اقوام متحدہ کے زرعی ترقی کے ادارے (آئی ایف اے ڈی) میں ترسیلات زر کے شعبے کے کوآرڈینیٹر پیڈرو ڈی واسکونسلوس نے وضاحت کرتے ہوئے کہا، ''کچھ ممالک میں یہ ہدف حاصل نہیں ہو گا۔ لیکن کچھ ممالک میں ہم پہلے ہی اس تک پہنچ چکے ہیں۔ کیا اسے حاصل کرنا ضروری تھا؟ ہاں، اس نے ہمیں ایک سمت بتا دی کہ کہاں جانا ہے۔ یہ ایک بہت اچھا ہدف ہے۔‘‘
پیڈرو کے مطابق ڈیجیٹل ترسیلات زر کرنے والی کمپنیوں نے ایسی پراڈکٹس تیار کی ہیں، جو ان کے موجودہ صارفین کے لیے بھی مالی مواقع مہیا کرتی ہیں۔ اس بارے میں وہ کہتے ہیں، ''ہم بنیادی طور پر کریڈٹ کی بچت، انشورنس، پینشن اور دیگر تمام چیزوں کو کراس سیل کر سکتے ہیں، جو کہ اس قسم کی سروس میں داخل ہو کر ادارے کے لیے منافع بخش ہو سکتے ہیں اور بنیادی طور پر وصول کنندگان کے لیے زندگی بدل سکتی ہے۔ ان کا یہ خیال بھی ہے کہ یہ رجحان ناگزیر ہے۔‘‘
ماہرین کے مطابق پاکستان میں بھی دنیا کے دیگر ممالک کی طرح ای کامرس سیکٹر کو بھی ایپس کے ذریعے زیادہ سے زیادہ مؤثر طریقے سے مربوط کیا جا سکتا ہے۔
بحرانوں میں اضافی ترسیلات زر
تاہم ڈیجیٹل ادائیگیوں کی نئی دنیا میں مجرمانہ سرگرمیوں کے لیے مواقع کے غلط استعمال کا خطرہ شامل ہے۔ کینیا میں فِن ٹیک کا علمبردار ادارہ ایم پیسا پندرہ سالوں سے موبائل آپریٹر سفاری کوم کی ایک ذیلی کمپنی ہے۔ اس کمپنی نے موبائل ادائیگیوں کا ایک ایسا ماڈل پیش کیا ہے، جو اسمارٹ فون کے دور سے پہلے بھی کام کرتا تھا اور تب سے اب تک اس کا ارتقا جاری ہے۔
ایم پیسا کے منیجنگ ڈائریکٹر لوپو کوئیٹ کا کہنا ہے کہ تمام ڈیجیٹل لین دین کی حقیقی وقت میں تصدیق کی جاتی ہے اور ایم پیسا نے جنگلی حیات کی این جی اوز کے ساتھ شراکت داری کی ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ہاتھی دانت کی غیر قانونی تجارت کے لیے ان کی سروس کا استحصال نہ ہو۔
اسی طرح رقوم کا ڈیجیٹل لین دین کرنے والا ادارہ ویسٹرن یونین بھی جزوی طور پر بین الاقوامی رقوم کے بہاؤ میں سیاسی پابندیوں کی خلاف ورزی نہ ہونے کو یقینی بنانے کے لیے ریئل ٹائم اسکریننگ کا انعقاد کرتا ہے۔
ترسیلات زر کے نظام کی اہمیت میں اضافہ
ڈی واسکونسیلوس کا کہنا ہے کہ ترسیلاتِ زر آنے والے وقت میں مزید اہمیت حاصل کریں گے۔ اس بارے میں انہوں نے کہا کہ عالمی سطح پر تسیلات زر کی صرف 20 سالوں سے منظم طریقے سے نگرانی کی گئی ہے اور اس وقت سے ان میں خاص طور پر بحران کے وقتوں میں کافی اضافہ ہوا ہے۔
اقوام متحدہ کے اس اہلکار کے مطابق، ''آپ دیکھیں گے کچھ مواقعوں پر سرمایہ کاری کم ہوتی ہے، یہاں تک کہ امدادی رقوم کی فراہمی میں بھی کمی ہوتی ہے لیکن ایسے میں ترسیلات زر میں اضافہ ہوتا ہے۔ تارکین وطن اپنے خاندانوں کی ضروریات کو پورا کر رہے ہیں اور آج کل روابط کے زیادہ امکانات کے ساتھ یہ تارکین وطن حقائق سے آگاہ ہیں کہ ان کے خاندانوں کو روزانہ کی بنیاد پر مشکلات کا سامنا ہے۔‘‘
ڈیوڈ ایہل ( ش ر⁄ ع ا )