پاکستان میں کرسمس تقریبات پر خوف کے سائے
23 دسمبر 2017گرجا گھروں میں خصوصی عبادات اور دعائیہ تقریبات کا سلسلہ جاری ہے، سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر کرسمس کے کیک کاٹنے کی تقریبات بھی ہو رہی ہیں، کرسمس ڈنرز اور بچوں میں تحائف کا تبادلہ بھی جاری ہے، کئی ہوٹلوں اور اداروں نے اپنی عمارات پر کرسمس کے خصوصی درختوں اور رنگ برنگی جھنڈیوں سے آرائش کا اہتمام بھی کیا ہے۔
پاکستان ٹیلی وژن اور ریڈیو پاکستان نے بھی مسیحی برادری کے لیے کرسمس کے حوالے سے خصوصی پروگرام تیار کیے ہیں۔ اگرچہ بعض گرجا گھروں کو کرسمس کے موقع پر سجایا بھی گیا ہے لیکن اس مرتبہ گرجا گھروں میں روایتی کرسمس بازار دکھائی نہیں دے رہے۔
چرچ حملے کے بعد پاکستان میں سکیورٹی ہائی الرٹ
کوئٹہ: گرجا گھر پر حملے کی ذمہ داری اسلامک اسٹیٹ نے قبول کر لی
صوبہ پنجاب میں کرسمس کے موقع پر مسیحی برادری کی تقریبات اور گرجا گھروں کی حفاظت کے لیے ہزاروں پولیس اہلکار متعین کیے گئے ہیں۔ کرسمس کے موقع پر لاہور کے پارکوں اور باغوں میں ممکنہ دہشت گردی کو روکنے کے لیے بھی سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے ہیں۔
پاکستان کے وفاقی وزیر کامران مائیکل نے ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ کوئٹہ کے سانحے کے بعد مسیحی برادری کے دل دکھی ہیں، اسی لیے اس سال کرسمس کا خوشیوں کا تہوار سانحہ کوئٹہ سے متاثرہ افراد کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے سادگی سے منایا جا رہا ہے اور ماضی کی طرح چراغاں نہیں کیا جا رہا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ حکومت نے اس سال کرسمس کے موقع پر سخت ترین حفاظتی انتظامات کیے ہیں، ’’میں خود اس سلسلے میں آئی جی، ایف سی، پولیس سربراہان اور سکیورٹی ایجنسیوں سے رابطے میں ہوں۔‘‘
انہوں نے بتایا کہ کرسمس خوشی اور امن کا تہوار ہے، اس دن امن کا شہزادہ انسانیت کے لیے نجات اور سلامتی کا پیغام لے کر آیا تھا۔ ایک اور سوال کے جواب میں کامران مائیکل نے بتایا کہ پاکستانی حکومت نے مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے ملازمین کو 20 تاریخ سے پہلے تنخواہوں کی ادائیگی کا اہتمام کر دیا تھا۔ ’’اسی طرح غریب لوگوں کو کرسمس کی خوشیوں میں شریک کرنے کے لیے حکومت نے کروڑوں روپے کی رقوم جاری کیں۔ مزید یہ کہ حکومت نے 24 اور 25 دسمبر کو ملک بھر میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ نہ کرنے کا بھی فیصلہ کیا۔‘‘
مسیحیت میں اصلاحات کے پانچ سو سال، جرمنی میں عالمی اجتماع
جرمن کلیساؤں کی جانب سے مہاجرین کو زیادہ تحفظ کی فراہمی
پاکستان تحریک انصاف کی ایک رہنما اور پنجاب اسمبلی کی رکن شنیلہ روتھ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس سال کرسمس دکھ، خوشی، خوف اور امید کے ملے جلے جذبات کے ساتھ منائی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’کرسمس کا تہوار ہمارے دل کے بہت قریب ہے، یہ یسوع مسیح کے اس دنیا میں آنے کی خوشی میں منایا جاتا ہے، اس سال بھی بہت سے اداروں، گھروں اور گرجا گھروں میں کرسمس کی تقریبات جاری ہیں۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر ملک میں سکیورٹی انتظامات کی بہتری کے حکومتی دعوے درست ہوتے، تو کوئٹہ کا سانحہ پیش نہ آتا۔ ان کے مطابق کرسمس کے حوالے سے خطرات موجود ہیں اور سکیورٹی انتظامات کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
ادھر مرکز برائے سماجی انصاف کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور انسانی حقوق کے کارکن پیٹر جیکب نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پچھلے 20 برسوں میں ہونے والی دہشت گردی کی وارداتوں نے کرسمس کی خوشیوں کو مستقل طور پر گہنا دیا ہے اور دہشت گردی کے ڈر سے کرسمس کی سرگرمیاں مسلسل محدود ہوتی جا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی صوبہ پنجاب میں 54 دیہات ایسے ہیں، جہاں مسیحی برادری اکثریت میں ہے۔ وہاں ماضی میں کرسمس کے موقع پر عام طور پر مسیحی بچوں کی طرف سے ایک دوسرے کے گھر جا کر کرسمس کے مخصوص گیت گانے کی رسم ادا کی جاتی تھی، جو اب معدوم ہو کر رہ گئی ہے۔ اسی طرح کرسمس کے موقع پر کھیلوں کے مقابلے ہوا کرتے تھے، وہ بھی اب اس طرح نہیں ہوتے۔
کرسمس کے موقع پر معافی، جرمنی میں آٹھ سو سے زائد قیدی رہا
کرسمس منانے پر انتہا پسند ہندوؤں کی دھمکیاں
پیٹر جیکب کے بقول لاہور میں کرسمس کے موقع پر ریلوے ہیڈ کوارٹرز کے علاقے سے ’یسوع بادشاہ کا جلوس‘ مال روڈ پر ریگل چوک کی طرف آیا کرتا تھا، لیکن سکیورٹی خدشات کی وجہ سے 2004 سے یہ جلوس بھی نہیں نکالا جا سکا۔
پیٹر جیکب نے بتایا کہ 19 جون 2014 کو پاکستانی سپریم کورٹ نے اقلیتوں کی قومی کونسل تشکیل دینے کا حکم دیا تھا، اس فیصلے پر بھی ابھی تک عمل نہیں ہو سکا۔ انہوں نے کہا کہ اسی طرح نیشل ایکشن پلان پر بھی پوری طرح عمل نہیں ہو پایا اور موجودہ ’حالات میں بہتری کے لیے سپریم کورٹ کے فیصلے اور نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد انتہائی ضروری ہے‘۔