1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں ’کزن میرج کا خطرناک رجحان‘

13 فروری 2022

طبی ماہرین کے مطابق پاکستان میں ’کزن میرج کا خطرناک رجحان‘ کئی علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ ’ان بریڈنگ‘ کئی جینیاتی امراض کا باعث بن سکتی ہے اور لوگوں کی ذہنیت کو تبدیل کرنے کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔

https://p.dw.com/p/46h8i
Pakistan Lahor | Behandlung von Kindern mit Thalassämie
تصویر: Rana Sajid Hussain/Pacific Press/picture alliance

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے رہائشی غفور حسین شاہ آٹھ بچوں کے والد ہیں اور پیشے کے اعتبار سے ایک استاد ہیں۔ پاکستان میں خاندانی رسم و رواج کے مطابق شاہ سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے وسیع خاندان کے اندر ہی اپنے بچوں کی شادیاں کرائیں۔ 56 سالہ شاہ قریبی خاندان میں شادیوں سے بچوں میں ممکنہ طور پر نمودار ہونے والی جینیاتی بیماریوں کے خطرات سے بخوبی واقف ہیں۔ انہوں نے سن 1987 میں اپنی کزن سے شادی کی تھی اور ان کے تین بچے مختلف عارضوں میں مبتلا ہیں۔

ناروے میں کزن میرج پر پابندی کا مطالبہ

پاکستان میں ذیابیطس میں اضافہ، طبی ماہرین کو تشویش

مرگی کے علاج کے لیے جدید تحقیق

شاہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کے ایک بیٹے کا دماغ معمول کے مطابق نہیں بڑھ سکا۔ ان کی ایک بیٹی کو بولنے میں اور ایک اور بیٹی کو سننے میں مشکل پیش آتی ہے۔ شاہ کے بقول انہیں افسوس ہے کہ ان کے یہ تینوں بچے تعلیم حاصل نہیں کر سکے، ''میں ہمیشہ ان کے بارے میں پریشان رہتا ہوں۔ میری بیوی اور میرے گزر جانے کے بعد ان کی دیکھ بھال کون کرے گا؟‘‘

غفور حسین شاہ کا کہنا ہے کہ جینیاتی امراض کے خطرات کے باوجود کزنز کے ساتھ شادی کے لیے بہت زیادہ سماجی دباؤ ہوتا ہے۔ جو بھی اپنے بچوں کی خاندان میں شادی سے انکار کرتا ہے، اسے بے دخل کر دیے جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔ شاہ کو بھی اپنے ایک بیٹے اور دو بیٹیوں کی شادی قریبی رشتہ داروں میں کرنا پڑی۔ شاہ کے خاندان میں خون کی خرابی، سیکھنے کی معذوری، اندھے پن اور بہرے پن کی بیماریاں پائی جاتی ہیں۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ خاندان میں شادیاں اس کی وجہ ہو سکتی ہے۔

پاکستان میں جینیاتی تغیرات پر سن 2017 کی ایک رپورٹ کے مطابق ملکی آبادی کی 'متضاد ساخت'، جس میں خون کے رشتے بھی شامل ہیں، جینیاتی عوارض کے پھیلاؤ کا باعث ہے۔ رپورٹ میں ایک 'جینیاتی تبدیلی کا ڈیٹا بیس‘ متعارف کرایا گیا ہے، جو مختلف قسم کے تغیرات اور ان کی وجہ سے ہونے والی خرابیوں کی شناخت اور انہیں ٹریک کرتا ہے۔ ڈیٹا بیس کے مطابق پاکستان میں پائے جانے والے 130 مختلف قسم کے جینیاتی عوارض میں 1000 سے زائد تغیرات رپورٹ ہوئے ہیں۔

جینیاتی امراض کی ماہر امراض اطفال ہما ارشد چیمہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان میں 'ان بریڈنگ‘ کی وجہ سے 'جینیٹک ڈس آڈرز‘ کا بہت زیادہ بوجھ ہے۔ انہوں نے کہا کہ مخصوص عوارض کو مخصوص ذاتوں اور قبائل سے جوڑا جا سکتا ہے، جہاں خاندان کے اندر شادیاں عام ہیں۔

پاکستان میں اس وقت نظر آنے والے سب سے عام جینیاتی امراض میں سے ایک خون کی خرابی تھیلیسیمیا ہے، جس میں خون کے سرخ خلیات آکسیجن جذب نہیں کر پاتے۔

کراچی سے تعلق رکھنے والے ماہر صحت سراج الدولہ کے مطابق پاکستان میں کزن میرج کے رواج کو اسلامی مذہبی عقائد سے جوڑا جا سکتا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میں نے علما سے کہا کہ وہ جینیاتی بیماریوں کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے میں مدد کریں اور ان سے کہا کہ وہ لوگوں کو بتائیں کہ کس طرح خاندانی شادیاں جینیاتی بیماریوں میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں۔‘‘ سراج الدولہ کے مطابق جن علما کے ساتھ انہوں نے بات کی انہوں نے صاف انکار کر دیا اور یہ دعویٰ کیا کہ ایسی شادیاں اسلامی شریعت کے مطابق ہیں۔

مارچ 2020 میں حکومت پنجاب نے ایک ٹاسک فورس تشکیل دی تھی، جس کا مقصد جینیاتی بیماریوں کی روک تھام ہے۔ لاہور میں بچوں کا ہسپتال اب بین الاقوامی تنظیموں کے تعاون سے مفت جینیاتی اسکریننگ کی خدمات پیش کر رہا ہے۔

ڈاکٹروں کے مطابق قریبی خاندان کے افراد کے ساتھ بچے پیدا کرنے کے خطرے پر پاکستان میں لوگوں کی ذہنیت کو تبدیل کرنے کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔

’ایسی محبت جس کا انجام شاید موت ہے‘

ع س / ا ا (عبدالستار)