پاکستان میں کوڑے سے سونا تلاش کرنے والے افراد
26 جولائی 2011پاکستان کے شہر پشاور میں یہ تکلیف دہ اور غلیظ کام راتوں رات امیر ہو جانے کا خواب دیکھنے والے افراد کرتے ہیں۔ تاہم اس کام میں اپنی زندگی کے نو سال صرف کرنے کے بعد کمر تک کیچڑ آلود پانی میں کھڑے19سالہ مراد علی کے خواب ابھی تک زندہ ہیں۔
اس نے چیخ کر کہا، ’’مل گیا‘‘، اور اپنی مٹھی دکھائی، جس میں ایک چھوٹی سی سونے کی انگوٹھی دبی ہوئی تھی۔ اس کے چہرہ اور کپڑے غلاظت سے آلودہ ہیں مگر اس کے منہ پر سجی مسکراہٹ یا آنکھوں کی چمک ماند نہیں پڑی۔
اس نے نلکے کے پانی سے انگوٹھی کو دھوتے ہوئے کہا، ’’یہ سونے کی انگوٹھی ہے۔ میں اسے 2,500 روپے میں فروخت کر سکتا ہوں۔‘‘
تاہم عام طور پر وہ کوڑا کرکٹ اور مٹی کو پلاسٹک کی تھیلیوں میں ڈال کر جمع کرتا ہے تاکہ اس میں سے سونا تلاش کر سکے۔ رواں ہفتے سونے کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ ہوا اور وہ لندن میں 1,600 یورو فی اونس سے بڑھ گئیں۔
پشاور کے نواحی علاقے شاہ ڈنڈ میں پل بڑھ کر جوان ہونے والے علی کا کہنا ہے کہ وہ ہر ہفتے 6 سے 7 ہزار روپے (81 یورو) کماتا ہے۔ لیکن اس کام کا انحصار قسمت اور تقدیر پر ہے۔ ‘‘بعض اوقات میں زیادہ بھی کما لیتا ہوں۔ ایک بار تو میں نے 10 ہزار روپے (116 یورو) کمائے تھے۔’’
اس کام سے وابستہ افراد کی درست تعداد معلوم نہیں مگر مقامی صرافوں کا تخمینہ ہے کہ پاکستان کے شمال مغربی صوبے میں سینکڑوں افراد سونے کی تلاش میں قسمت آزمائی کرتے ہیں۔
ایک روز میری قسمت کا دروازہ کھل جائے گا
پاکستان میں زیورات اور خاص طور پر سونے کو فخر، دولت اور احساس برتری کی علامت تصور کیا جاتا ہے اور اسی لیے یہ ایک بڑا کاروبار ہے۔
سڑکوں اور نالوں میں سونے کی تلاش کا کام شام کے دھندلکے میں شروع ہوتا ہے اور صبح تک جاری رہتا ہے۔ گند کے ڈھیر میں سونے کے ننھے ذرات شامل ہو سکتے ہیں جو صرافوں کی جانب سے زیورات تیار کرنے کے لیے دھات کی ڈھلائی کے دوران نکلتے ہیں۔
عارف اللہ خان نامی صراف نے بتایا کہ سونے کے ننھے ذرات کو ریت اور مٹی سے الگ کرنے کے لیے خاص قسم کا تیزاب استعمال کیا جاتا ہے جو لوہے اور دیگر دھاتوں کو گلا دیتا ہے اور صرف سونے کے ذرات پیچھے بچتے ہیں۔
اندرون شہر کے صرافہ بازار کی مارکیٹ ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ علاقے سے صفائی کرنے کے بلا شرکت غیرے حقوق حاصل کرنے کے لیے ٹھیکیدار بیس ہزار روپے ماہانہ دیتا ہے۔
نزدیکی گٹر میں سونا تلاش کرنے والے 14 سالہ فضل الرحمٰن کو امید ہے کہ ایک روز اس کی قسمت بھی جاگ اٹھے گی۔
رپورٹ: حماد کیانی
ادارت: عدنان اسحاق