پاکستان میں گمشدہ افرادکا مسئلہ تمام صوبوں تک پھیل گیا
11 اپریل 2017بلوچ گمشدہ افراد کی بازیابی کے لیے کام کرنے والے ماما قدید بلوچ کا کہنا ہے کہ ان کے صوبے میں ہزاروں افراد لاپتہ ہیں، جن میں سے ایک بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے۔ ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے ماما قدید نے کہا، ’’بلوچستان میں مجموعی طور پر پینتیس ہزار افراد لاپتہ ہیں اور تقریبا آٹھ ہزار افراد کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی گئی ہیں۔ صرف دوہزار سولہ میں تین ہزار افراد کو غائب کیا گیاجب کہ پانچ سومسخ شدہ لاشیں ملیں۔ ان افراد میں زیادہ تعداد نوجوانوں اور طالبِ علموں کی ہے۔‘‘
جب ان سے اس عمومی رائے کے بارے میں دریافت کیا گیا کہ یہ اعداد و شمار بڑھا چڑھا کر پیش کیے جارہے ہیں تو بلوچ سیاسی کارکن کا کہنا تھا، ’’ہمارے پاس ان تمان افراد کی فہرستیں اور پوری تفصیلات موجود ہیں، جو ہم بین الاقوامی تنظیموں اور ذرائع ابلاغ کو فراہم کر رہے ہیں۔ سینیٹ کے چیئرمین میاں رضا ربانی نے بھی ہم سے تفصیلات مانگی ہیں اور ہم جلد ہی انہیں یہ فراہم کریں گے۔‘‘
ڈی ڈبلیو کے پوچھنے پر ماماقدیر نے اعتراف کیا کہ گمشدہ افراد کے حوالے سے بننے والے کمیشن نے ان افراد کی تعداد صرف سترہ بتائی ہے، ’’یہ بات درست ہے کہ اس کمیشن نے ان افراد کی تعداد سترہ بتائی ہے جب کہ صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہاکہ ایسے افراد کی تعداد صرف چالیس ہے۔ آپ کو اس کی وجوہات تلاش کرنا ہوں گی۔ جب لوگ سرکاری اداروں کے پاس گمشدگی کی شکایات لے کر جاتے ہیں تو انہیں مزید دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ اس لیے لوگوں کو سرکاری اداروں پر اعتماد نہیں ہے۔‘‘
لیکن دفاعی تجزیہ نگار جنرل امجد شعیب اس کو صرف پروپیگنڈا قرار دیتے ہیں، جس کا مقصد پاکستان کو بدنام کرنا ہے۔ ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’اس مسئلے پر جو کمیشن بنا تھا اس نے صرف سترہ افراد کے گمشدہ ہونے کی نشاندہی کی تھی۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ کئی افراد لا پتہ ہیں، اس میں سے ایک بڑی تعداد افغانستان میں چھپی ہوئی ہے جہاں وہ براہمداغ بگٹی کے تربیتی کیمپ میں دہشت گردی کی ٹریننگ لیتے ہیں جب کہ کچھ افراد مسقط یا دوسرے ممالک میں چلے گئے ہیں۔ کئی ایسے بھی ہیں جو پہاڑوں میں روپوش ہیں اور کئی سرداروں کی نجی جیلوں میں ہیں۔ اگر ان کے بقول یہ اتنی بڑی تعداد ہے تو پھر یہ کمیشن کے سامنے پیش کیوں نہیں ہوئے۔‘‘
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے ایک رہنما اسد بٹ کے مطابق گمشدہ افراد کی تعداد ہزاروں میں ہے: ’’میرے خیال میں کم از کم دوہزار سے پچیس سو کے قریب افراد لاپتہ ہیں۔ ہمارے بلوچستان کے لوگ کہتے ہیں کہ یہ تعداد بہت زیادہ ہے۔ ان گمشدہ افراد کا تعلق سندھی قوم پرست تنظیموں، شیعہ جماعتوں، بلوچ علیحدگی پسندوں پارٹیوں اور ایم کیو ایم سے ہے۔ ہماری ایجنسیوں کو سائنسی انداز میں تفتیش کرنے کی تربیت نہیں دی گئی ۔ اسی لیے ان کے پاس بس ایک ہی طریقہ ہے اٹھاؤ اور ٹارچر کرو اور اقبالِ جرم کرا لو۔ اٹھانے کا اعتراف اس لیے نہیں کرتے کہ ٹارچر کے دوران لوگ ہلاک بھی ہوجاتے ہیں۔ تو اٹھانے کا اعتراف ان کے لیے مشکل پیدا کر سکتا ہے۔ اس لیے جب کوئی ٹارچر کی وجہ سے مر جاتا ہے تو اس کی لاش پھینک دی جاتی ہے۔‘‘
حیدر آباد سے تعلق رکھنے والے معروف تجزیہ نگار بخشل تھلو نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’سندھ میں لوگوں کو گمشدہ کرنے کا سلسلہ سندھی قوم پرست کارکنان کو اٹھانے سے شروع ہوا، جن میں سے کئی افراد کو مار کے پھینکا بھی گیا۔ جس کا اثر یہ ہوا کہ اب اگر کوئی گمشدہ ہوجاتا ہے تو اس کے گھر والے ذرائع ابلاغ یا پولیس سے رابطہ نہیں کرتے بلکہ خاموشی سے دوسرے ذرائع استعما ل کرتے ہیں یا پھر صرف انتظار کرتے ہیں۔ یہ بھی ہورہا ہے کہ چالیس لڑکوں کو اٹھایا اور باقی سب کو چھوڑ کر دو چار کو غائب کردیا۔ حال ہی میں ایک یونیورسٹی سے چالیس لڑکوں کو اٹھایا گیا جن میں سے بیشتر کو چھوڑ دیا۔ تھر پارکر سے تقریباﹰ پچیس سو افراد کو اٹھا یا گیا اور پھر انہیں چھوڑ دیا گیا لیکن خوف کے مارے کوئی بھی ذرائع ابلاغ کے پاس نہیں گیا۔ ایسا لگتا ہے کہ ریاست اختلاف کو بالکل برداشت کرنا چاہتی اور ہر چیز دھونس و دھاندلی سے کرنا چاہتی ہے۔‘‘
اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھی جانے والی مذہبی پارٹیاں بھی اسی طرح کی شکایات کر رہی ہیں۔ اہلسنت والجماعت کے رہنما اُنیب فاروقی نے ڈی ڈبلیو کو اس حوالے سے بتایا، ’’ہمارے تقریباﹰ سو کارکنان غائب ہیں، جن میں پانچ رہنما بھی شامل ہے۔ حکومت نے ان کی بازیابی کے لیے ابھی تک کچھ نہیں کیا۔‘‘
حالیہ دنوں میں گمشدگی کا یہ سلسلہ وفاق پرست جماعتوں تک پہنچ گیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے تین رہنماؤں کو حالیہ دنوں میں اٹھایا گیا ہے۔ اس حوالے سے پی پی پی کے رہنما فرحت اللہ بابر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’یہ تین رہنما سابق صدر آصف علی زرداری کے قریبی لوگ ہیں۔ ہم نے وزیرِ داخلہ سے کہا ہے کہ وہ اس بارے میں ایوان کو آگا ہ کریں اور ہمیں بتایا جائے کہ اگر ان لوگوں نے کوئی جرم کیا ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیوں نہیں کیا گیا ہے۔ ہمارا رابطہ ان افراد کے گھرانوں سے ہے۔ آج دیکھیں بلیغ الرحمن صاحب شاید اس حوالے سے کچھ بتائیں۔‘‘