1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں ہائر ایجوکیشن کی بھول بھلیاں

10 جنوری 2021

ہائر ایجوکیشن کمیشن کے نئے قوانین 18 ویں ترمیم کے خلاف خود مختاری کو پامال کرنے کے مترادف سمجھے جا رہے ہیں۔ سندھ کی مختلف سرکاری یونیورسٹیوں میں اٹھارہویں ترمیم اور ايچ ای سی کے اختیارات پر پرانی بحث پھر سے چھڑی گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/3nkUc
DW-Urdu Blogerin Saba Hussain
تصویر: Privat

پہلے پہل یہ بحث تب شروع ہوئی تھی، جب پاکستان کے آئین میں اٹھارویں ترمیم کے تحت تعلیم کا شعبہ صوبائی حکومت کے ذمے دے ديا گيا تھا۔ ليکن جب اختیارات منتقل کرنے کی بات آئی تو بات پھنس گئی۔ جھگڑا ختم کرنے کے لیے تعلیم کے شعبے کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ یوں تعلیم اور اعلیٰ تعلیم دو مختلف شعبے بن گئے۔

ایسے میں جب صوبوں نے ناراضگی کا اظہار کیا، تو معاملہ عدالت تک پہنچ گيا۔ پھر صوبائی ہائر ایجوکیشن کمیشن کا وجود عمل ميں آيا، جس کے ہاتھوں میں یونیورسٹیوں اور کالجوں کی حکمت عملی پر عملدرآمد کا کام سونپا گیا۔ يہ الگ بات ہے کہ حکمت عملی طے کرنا اور فنڈز مہیا کرنا، دراصل فیڈرل ہائر ایجوکیشن کمیشن کی ذمہ داری قرار دی گئی۔ عام الفاظ میں اس معاملے کو یوں سمجھیں کہ بنيادی تعلیم یعنی پرائمری اور سیکنڈری کو صوبائی اختیار میں دے دیا گیا جبکہ اعلیٰ تعلیم يا جامعات اور یونیورسٹیوں کو فیڈرل کی ذمہ داری قرار دیا گیا۔

ایچ ای سی کے قیام کے بعد یونیورسٹیوں میں تحقيق کے کلچر کو بہت فروغ ملا، جس کے تحت انڈر گریجوئیٹ سے لے کر ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریوں تک کے لیے نئی ریسرچ پالیسیوں پر عملدرآمد کو لازم قرار دیا گیا۔ پھر سن 2008 میں ایسوسی ایٹ ڈگری پروگرام نافذ کرنے کی کوشش کی گئی جو کہ ایک بہت بنیادی اور اہم فیصلہ تھا۔ اس پر کراچی اور سندھ کی دیگر یونیورسٹیوں میں شور مچا اور تنقید ہوئی، نتيجتاً اس پروگرام کو سرکاری سطح پر مسترد کر دیا گیا۔ اب پھر سے ایچ ای سی کی کوشش ہے کہ دو سال کی ڈگریوں کو ختم کر کے ایسوسی ایٹ ڈگری نافذ کی جائے لیکن پھر سے ایک شور برپا ہے اور وجہ اتنی پیچیدہ اور غیر معقول نہیں ہے، جتنا اس کو بنا دیا گیا ہے۔

اگر سیدھے اور صاف ستھرے الفاظ میں بیان کروں تو کراچی یونیورسٹی اور سندھ کی دیگر سرکاری یونیورسٹیاں کہتی ہیں کہ انہيں کسی بھی پالیسی کو اپنانے کے لیے وسائل بھی اسی سطح کے چاہئیں، جس معيار کے کام کی ان سے توقع ہے۔ کراچی یونیورسٹی کہتی ہے کہ انتظامی اخراجات کی ساری رقوم انہی دو سال کی ڈگریوں سے نکلتی ہيں اور انہی پروگراموں کو ختم کرنے کی بات کی جا رہی ہے۔ یہ ختم ہو گئے، تو يونيورسٹی وسائل کہاں سے پیدا کرے گی؟ پھر سے کہوں گی کہ یہ مسئلہ اتنا پیچیدہ تھا نہیں جتنا اس کو بنایا گیا ہے۔

رہی بات دو سال کی ڈگری کی، تو دونوں آپریشن یعنی چار سال اور دو سال کو کھول کر دو سال کی ڈگری کے کریڈٹ آورز کو تیز پٹری پر ڈالا جا سکتا ہے اور چار سال کی ڈگری کو دو سال میں نمٹایا جا سکتا ہے۔ افہام و تفہیم اور بات چیت سے اس مسئلے کو ختم کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے لیکن چونکہ مسائل کا حل نکالنا پاکستانی روایات کے خلاف ہے، اس لیے يہ مسئلہ اور وقت اور کھنچے گا جس  دوران طلبا کو مسلسل مشکل وقت سے گزرنا پڑے گا۔

حیرت  اور افسوس کی لہر تب دوڑ جاتی ہے جب کراچی یونیورسٹی کا گریجویٹ قائد اعظم یونیورسٹی میں ایم فل کے لیے جاتا ہے اور قائد اعظم یونیورسٹی اس کی ڈگری کو پہچاننے سے ہی انکار کر دیتی ہے۔ باوجود اس کے کہ دونوں ایک ہی ملک کے جانے مانے اور ایک ہی یونٹ کے نیچے آتے ہیں۔

ایجوکیشن کمیشنز کا کام طلبا کو سہولیات فراہم کرنا ہوتا ہے۔ جانے کیوں یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ انتظامی امور کا مطلب مشکلوں میں اضافہ کرنا ہوتا ہے۔ قدم قدم پر سامنے والی مشکلوں میں سمجھ نہیں آتا کہ اپنی ذہنی اور جسمانی تھکاوٹ کا رونا رویا جائے یا پھر فیڈرل اور صوبائی یونٹوں کی ایک دوسرے کے لیے پائی جانے والی اجنبیت کا ماتم کیا جائے۔ اگر یہ یونٹ متفق ہو کر سسٹم کو ایک ہی سمت میں چلانا شروع کر دیں، تو طلبا کے آدھے مسائل حل ہو جائیں گے۔

DW Urdu Korrespondentin Saba Hussain
صبا حسین نوشہرو فیروز، سندھ سے ایک فری لانس بلاگر ہیں۔sabahussain26