1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان نے بنگلہ دیشی سفارت کار کو بے دخل کر دیا

عابد حسین6 جنوری 2016

پاکستانی حکومت نے بنگلہ دیش سے کہا ہے کہ وہ اپنے سفارت خانے کے ایک سینیئر سفارت کار فوری طور پر واپس طلب کر لے۔ بنگلہ دیشی سفارت کار کو پاکستان چھوڑنے کے لیے دو دن دیے گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1HZNc
تصویر: Reuters/F. Mahmood

بنگلہ دیشی وزارت خارجہ کے سیکرٹری شاہد الحق نے آج منگل کے روز بتایا ہے کہ اسلام آباد حکومت نے ان کی حکومت کو مطلع کیا ہے کہ اسلام آباد میں بنگلہ دیشی سفارت خانے کے سینیئر سفارت کار موشومی الرحمن کو فوری طور پر پاکستان سے واپس بلایا جائے۔ شاہد الحق کے مطابق موشومی الرحمان کو پاکستان چھوڑنے کے لیے اڑتالیس گھنٹوں کی مہلت دی گئی ہے۔ شاہد الحق نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ موشومی الرحمان اسلام آباد میں بنگلہ دیشی ایمبیسی میں پولیٹیکل قونصلر اور چانسری کے سربراہ کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

اسلام آباد حکومت نے بنگلہ دیشی سفارت کار کو جمعرات تک پاکستان چھوڑ دینے کا حکم دیا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ گزشتہ برس تیئیس دسمبر کو پاکستان نے ڈھاکا میں متعین اپنی ایک سفارت کار کو بنگلہ دیشی حکومت کے کہنے پر واپس بلا لیا تھا۔ پاکستان کی خاتون سفارت کار پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ مسلم انتہا پسندوں کی مالی معاونت کا عمل جاری رکھے ہوئے تھی۔

Pakistan Außenministerium in Islamabad
پاکستانی وزارتِ خارجہ کا دفترتصویر: Abdul Sabooh

بنگلہ دیش کی وزارت خارجہ کے سیکرٹری نے یہ نہیں بتایا کہ اُن کے ملک کے سفارت کار کو کس بنیاد پر پاکستان چھوڑنے کی ہدایت جاری کی گئی ہے۔ پاکستانی سفارت کار کو ڈھاکا سے واپس بیجنے کی وجہ پولیس کے تفتیش کاروں کو مشبہ انتہا پسند ادریس شیخ کا اعترافی بیان تھا۔ اِس بیان میں مشتبہ انتہا پسند شیخ نے پاکستانی سفارت کار فارینہ ارشد سے 380 امریکن ڈالر یا تیس ہزار بنگلہ دیشی ٹکا وصول کرنے کا بتایا تھا۔ ڈھاکا کی پولیس نے ادریس شیخ نامی انتہا پسند کا تعلق کالعدم جمیعت المجاہدین سے بتایا گیا ہے۔ خاتون سفارت کار پر عائد الزام کی پاکستان نے سخت الفاظ میں تردید کی تھی۔

دوسری جانب سفارتی تعلقات کے ماہرین کا خیال ہے کہ اسلام آباد حکومت نے پاکستانی سفارت کار کو ڈھاکا سے واپس بلانے کے جواب میں موشومی الرحمان کو بے دخل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ڈھاکا یونیورسٹی کے انٹرنیشنل ریلیشنز کے پروفیسر دلاور حسین کا کہنا ہے کہ اسلام آباد حکومت کا فیصلہ ایک بدلہ ہے اور یہ کوئی حیران کن نہیں۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان باہمی تعلقات میں کشیدگی کی وجہ بنگلہ دیش کی سن 1971 کی آزادی کی جنگ کے دوران مبینہ جنگی جرائم کے تناظر میں دو اہم اپوزیشن رہنماؤں کو پھانسی دینا خیال کیا گیا ہے۔ آج بدھ کے روز بنگلہ دیش کی مذہبی اپوزیشن سیاسی پارٹی جماعتِ اسلامی کے سربراہ مطیع الرحمان نظامی کو خصوصی ٹریبیونل کی جانب سے سنائی گئی پھانسی کی سزا ملکی سپریم کورٹ نے بحال رکھی ہے۔