1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان نے بھارت کی نئی حکومت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا دیا

26 جون 2024

پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ 'دائمی دشمنی' پر یقین نہیں رکھتا، اس نے مودی کی قیادت والی اس نئی حکومت پر زور دیا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان مستقبل کے تعلقات کے بارے میں 'سنجیدگی سے غور و فکر' کرنے کی ضرورت ہے۔

https://p.dw.com/p/4hVpc
پاکستان کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈا
پاکستان کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے بھارت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی وکالت کی اور بات چیت کے لیے پاکستان کے کھلے پن کا اظہار کیاتصویر: Faisal Mahmood/REUTERS

پاکستان نے منگل کے روز کہا کہ وہ بھارت کے ساتھ ''دائمی دشمنی'' پر یقین نہیں رکھتا اور ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کی قیادت والی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ جوہری ہتھیاروں سے لیس دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان مستقبل کے تعلقات کے بارے میں ''سنجیدگی سے غور و فکر'' کرے۔

پاکستانی وفد بھارتی جموں و کشمیر کا دورہ کیوں کر رہا ہے؟

پاکستان کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے دونوں ملکوں کے درمیان تنازعات کے حصار کو توڑنے کی بات کرتے ہوئے کہا کہ بھارت اور پاکستان جنوبی ایشیا کے لوگوں کے لیے اس بات کے مقروض ہیں کہ وہ ''اختلافات کے بجائے تعاون کو ترجیح'' دیں۔

’کشمیر پر پاکستان اور چین کے مشترکہ بیان پر بھارت کو اعتراض کا حق نہیں‘

واضح رہے کہ بھارت میں مودی کی قیادت والی ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کی حکومت کے دوران گزشتہ دس برسوں میں دونوں ہمسایہ ملکوں کے درمیان تعلقات بہتر ہونے کے بجائے کشیدہ ہوتے گئے ہیں اور بات چیت تو دور کی بات، فی الوقت، مکمل سفارتی رشتے بھی نہیں ہیں۔

بھارت کے پاس پاکستان سے زیادہ جوہری ہتھیار ہیں

اس پس منظر میں نریندر مودی نے حال ہی میں تیسری مدت کے لیے وزارت عظمی کا عہدہ سنبھالا ہے، تاہم اس بار وہ قدرے کمزور اور ایک مخلوط حکومت کی قیادت کریں گے، جس میں بیرونی معاملات کے بجائے گھریلو مسائل پر زیادہ توجہ دیے جانے کی توقع ہے۔ پاکستانی وزیر خارجہ کا خیال ہے کہ یہی وہ مناسب وقت ہے جب دونوں ملکوں کے مستقبل کے رشتوں پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔

'کشمیریوں کے خلاف بھارتی جارحیت کا مقصد پاکستان کو مشتعل کرنا'

بھارت سے تعلقات کی بحالی کے بارے میں پاکستان نے کیا کہا؟

پاکستان کے نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار نے بھارت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی وکالت کی اور بات چیت کے لیے پاکستان کے کھلے پن کا اظہار کیا۔

کیا مودی بھارت اور پاکستان کے مابین دوری ختم کر دیں گے؟

حکومت کے زیر انتظام چلنے والے ایک تھنک ٹینک 'انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز اسلام آباد (آئی ایس ایس آئی) کی 51 ویں سالگرہ کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا: ''ہمارے مشرق میں، بھارت کے ساتھ تعلقات تاریخی طور پر پریشان کن رہے ہیں۔''

نواز شریف کا بھارتی وزیر اعظم مودی کے نام پیغام

انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے مزید کہا، ''پاکستان دائمی دشمنی پر یقین نہیں رکھتا۔ ہم باہمی احترام، خود مختاری، برابری اور جموں و کشمیر کے دیرینہ تنازعے کے منصفانہ اور پرامن حل کی بنیاد پر بھارت کے ساتھ اچھے پڑوسیوں والے تعلقات چاہتے ہیں۔''

انہوں نے کہا کہ پاکستان ہمیشہ سے بات چیت کے ذریعے، ایسی تعمیری مشغولیت کو تسلیم کرتا رہا ہے، جس میں تمام تصفیہ طلب مسائل شامل ہوں۔ تاہم ''پاکستان یکطرفہ نقطہ نظر اور بھارت کی مرضی یا تسلط مسلط کرنے کی کوششوں سے کبھی بھی اتفاق نہیں کرے گا۔''

انہوں نے مزید کہا کہ ''جنوبی ایشیا میں اسٹریٹجک استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے ہم ہر ضروری قدم اٹھائیں گے اور نئی دہلی میں 'ہندوتوا' کے ایجنڈے پر چلنے والی حکومت کے کسی بھی غیر معمولی فوجی مہم جوئی کا مؤثر اور فیصلہ کن جواب دیں گے۔''

امید ہے پاکستان اور بھارت کے تعلقات بہتر ہوں گے، عمر عبداللہ

وزیر خارجہ نے مزید کہا، ''چونکہ بی جے پی کی زیر قیادت این ڈی اے کی حکومت ایک نئی مدت کا آغاز کر رہی ہے، اس لیے ہمارے خیال سے، یہی وہ وقت ہے کہ جب بھارت اور پاکستان کے تعلقات کے مستقبل اور اس پورے خطے کو متاثر کرنے والے متنازعہ مسائل کے بارے میں سنجیدگی سے غور کیا جانا چاہیے۔''

انہوں نے کہا کہ بھارت کے پانچ اگست 2019 کے غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات نے دو طرفہ تعلقات کے ماحول کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اسحاق ڈار نے زور دے کر کہا کہ ''بھارت پر یہ ذمہ داری بھی ہے کہ وہ تمام مسائل پر بامقصد مشغولیت اور نتیجہ خیز بات چیت کے لائق ماحول تیار کرنے کے لیے ضروری اقدامات کرے۔''

انہوں نے مزید کہا، ''اس تناظر میں یہ بھی اہم ہے کہ بھارت پاکستان کے خلاف اپنی مسلسل منفی مہم سے گریز کرے، پاکستان کے اندر دہشت گردانہ کارروائیوں اور ماورائے عدالت قتل کی اپنی ریاستی سرپرستی سے باز آئے نیز تعلقات کو مثبت سمت میں لے جانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔''

بھارت کی ہٹ دھرمی کے سبب سارک غیر موثر ہوئی

پاکستانی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ جنوبی ایشیا دنیا کی آبادی کی پانچویں سے بھی زیادہ کے انسانوں کا مسکن ہے اور خطہ غربت، بے روزگاری، ناخواندگی، بیماری، غذائی عدم تحفظ، پانی کی کمی، قدرتی آفات، ماحولیاتی انحطاط اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سمیت خطرناک چیلنجوں سے گھرا ہوا ہے۔

انہوں نے کہا، ''ایک دوسرے سے لڑنے کے بجائے، جنوبی ایشیائی ممالک کے لیے ان چیلنجوں کا مقابلہ کرنا سمجھداری کی بات ہو گی۔ ہم نہ صرف اقتصادی طور پر سب سے کم مربوط خطہ ہیں، بلکہ انسانی ترقی کے تقریباً تمام شعبوں میں بھی خطہ سب سے نچلی سطح پر ہے۔''

انہوں نے کہا کہ جنوبی ایشیائی ایسوسی ایشن فار ریجنل کوآپریشن (سارک) علاقائی تعاون اور یہاں کے بے شمار چیلنجوں سے نمٹنے کا واحد قابل عمل پلیٹ فارم ہے، تاہم اس کے ایک رکن ملک (بھارت) کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے پوری طرح سے ٹھپ پڑی ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ''جنوبی ایشیا کی سیاسی قیادت اپنے عوام اور آنے والی نسلوں کی اس بات کی مقروض ہے کہ وہ سمجھداری سے کام لے اور علاقائی تعلقات نیز باہمی تعاون میں ایک نئے صفحے کا آغاز کریں۔''

انہوں نے کہا کہ پاکستان کا نقطہ نظر ''پرامن ہمسائیگی'' کی پالیسی کے تصور میں پنہا ہے، جو اصل میں ایک ''پرامن بیرونی ماحول کی تخلیق کے لیے کوشاں ہے تاکہ ہم پائیدار اقتصادی ترقی کے اپنے بنیادی قومی مقصد کو پوری تندہی سے آگے بڑھا سکیں۔''

انہوں نے کہا کہ اس طرح پاکستان امن اور ترقی کے درمیان اٹوٹ ربط کا مضبوط حامی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس فریم ورک کے اندر پاکستان نے اپنے قریبی اور وسیع ہمسائیوں میں تمام ممالک کے ساتھ پرامن، تعاون پر مبنی اچھے تعلقات کے لیے مسلسل کوششیں کی ہیں۔ بعض معاملات میں چیلنجز اور حتیٰ کہ ناکامیوں کے باوجود پاکستان کا نقطہ نظر ثابت قدم رہا ہے۔

ص ز/ ج ا (خبر رساں ادارے)

دونوں طرف کے پنجاب میں آپس میں بہت پیار ہے: عمران عباس