پاکستان نے جرمن اخبار کی رپورٹ مسترد کر دی
31 اکتوبر 2011اخبار کا کہنا ہے کہ اس سے خفیہ معلومات طالبان کے ہاتھ لگنے کے خدشہ کو ہوا ملتی ہے۔ بِلڈ آم زونٹاگ میں یہ رپورٹ اتوار کو شائع ہوئی۔
روئٹرز کا کہنا ہے کہ پاکستانی وزارت خارجہ کے ایک اہلکار نے شناخت ظاہر نہ کرنے پر اس رپورٹ کو مضحکہ خیز قرار دیا۔ پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس کے مطابق یہ رپورٹ اس لائق نہیں کہ اس پر تبصرہ کیا جائے۔
اس کثیرالاشاعت اخبار نے اپنے ذرائع بتائے بغیر کہا کہ جرمن انٹیلیجنس ایجنسی بی این ڈی کی جانب سے وزارت داخلہ کو اس حوالے سے خبردار کیا گیا تھا۔ اس انتباہ میں کہا گیا کہ پاکستان نے افغانستان میں مقامی فورسز کی تربیت کرنے والے ایک سو اسّی جرمن پولیس اہلکاروں کی جاسوسی کی۔
جرمن وزارت داخلہ نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بی این ڈی کے اس شبے کے بارے میں بتایا کہ اس ایجنسی نے جرمنی کے ایک ای میل پیغام تک رسائی حاصل کی۔ تاہم وزارت داخلہ کے حکام نے اس کی تصدیق نہیں کی بلکہ یہ کہا کہ وہ جرمن پولیس کے ڈیٹا تک جامع رسائی کے کسی عمل سے آگاہ نہیں ہیں۔
بلڈ آم زونٹاگ کے مطابق پاکستانی ایجنسی نے جرمن وزارت داخلہ کو بھیجے گئے پیغامات اور نجی ٹیلی فون کالز، ملٹری مشن آرڈرز اور پولیس اہلکاروں کے ناموں کی فہرست تک رسائی حاصل کی۔
اس اخبار نے برلن میں نامعلوم سکیورٹی ماہر کے حوالے سے کہا: ’’تجربے کی بنیاد پر ہمیں یہ توقع رکھنی چاہیے کہ پاکستانی انٹیلیجنس ایجنسی آئی ایس آئی اہم عسکری معلومات مسلسل طالبان کو دے رہی ہے۔‘‘
روئٹرز کے مطابق بی این ڈی نے اس رپورٹ پر ردِ عمل ظاہر کرنے سے انکار کیا ہے۔ بلڈ نے سکیورٹی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ افغانستان میں تعینات جرمن پولیس اہلکار ماضی میں رابطے کے لیے سستے اور غیرمحفوظ ذرائع استعمال کرتے رہے ہیں۔
اخبار کے مطابق بی این ڈی کے انتباہ کے کچھ ہی دیر بعد اور جرمن صدر کے دورہ افغانستان سے پہلے وہاں تعینات جرمن پولیس اہلکاروں کے پاس نئے لیپ ٹاپ کمپیوٹر موجود تھے، جن کے ذریعے محفوظ رابطے کے لیے مطلوبہ سافٹ ویئرز بھی انہیں دستیاب تھے۔
رپورٹ: ندیم گِل / روئٹرز
ادارت: افسر اعوان