1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’پاکستان نے سن 2022 کے بدترین سیلاب سے کوئی سبق نہیں سیکھا‘

6 ستمبر 2024

پاکستان میں آج بھی لاکھوں لوگ سیلابی پانی کی گزرگاہوں پر یا ان کے انتہائی قریب رہائش پذیر ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نہ تو عوام اور نہ ہی حکومت نے سن 2022 کے تباہ کن سیلاب سے کوئی سبق سیکھا ہے۔

https://p.dw.com/p/4kLfA
ان دنوں پاکستان کے زیادہ تر انہی علاقوں میں موسلا دھار بارشیں ہو رہی ہیں، جو دو سال قبل سیلاب سے بری طرح متاثر ہوئے تھے
ان دنوں پاکستان کے زیادہ تر انہی علاقوں میں موسلا دھار بارشیں ہو رہی ہیں، جو دو سال قبل سیلاب سے بری طرح متاثر ہوئے تھےتصویر: Pervez Masih/AP Photo/picture alliance

ان دنوں پاکستان کے زیادہ تر انہی علاقوں میں موسلا دھار بارشیں ہو رہی ہیں، جو دو سال قبل سیلاب سے بری طرح متاثر ہوئے تھے۔ تب اس تباہ کن سیلاب میں 1,737 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

سیو دی چلڈرن نامی بین الاقوامی فلاحی تنظیم نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان میں اس سال مون سون کے آغاز سے لے کر اب تک سیلاب اور شدید بارشوں سے 150 سے زائد بچے ہلاک ہو چکے ہیں، جب کہ جولائی کے بعد سے مجموعی ہلاکتوں کی تعداد تقریبا 300 بتائی جا رہی ہے۔

جمعرات کو اس تنظیم کی طرف سے بتایا گیا کہ پاکستان میں ان بارشوں کی وجہ سے تقریباً 200 بچے زخمی بھی ہوئے ہیں، جبکہ بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد ہزاروں میں بنتی ہے۔ سیو دی چلڈرن نے یہ بھی کہا ہےکہ حالیہ بارشوں اور سیلاب سے متاثرہ بے گھر لوگ جنوبی صوبے سندھ کے ضلع سانگھڑ میں واقع ایک ریلیف کیمپ میں رہ رہے ہیں۔ یہ سندھ کا وہی علاقہ ہے جو دو سال قبل سیلاب سے بڑے پیمانے پر متاثر ہوا تھا۔

اس فلاحی تنظیم نے مزید کہا ہے کہ وہ مقامی تنظیموں کے ساتھ مل کر متاثرہ افراد کو مدد فراہم کر رہی ہے۔ اس تنظیم کے مطابق، ’’حالیہ بارشوں اور سیلاب سے سانگھڑ میں کپاس کی 80 فیصد فصلیں تباہ ہو گئی ہیں، جو کئی کسانوں کی آمدن کا بنیادی ذریعہ تھیں اور سینکڑوں مویشی بھی ہلاک ہو چکے ہیں۔‘‘

ان دنوں پاکستان کے زیادہ تر انہی علاقوں میں موسلا دھار بارشیں ہو رہی ہیں، جو دو سال قبل سیلاب سے بری طرح متاثر ہوئے تھے
ان دنوں پاکستان کے زیادہ تر انہی علاقوں میں موسلا دھار بارشیں ہو رہی ہیں، جو دو سال قبل سیلاب سے بری طرح متاثر ہوئے تھےتصویر: AP Photo/picture alliance

پاکستان میں سیو دی چلڈرن کے ملکی ڈائریکٹر خرم گوندل کہتے ہیں کہ کسی بھی آفت میں ہمیشہ بچے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ''ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ سیلاب اور شدید بارشوں کے فوری اثرات طویل المدتی مسائل نہ بن جائیں۔ صرف صوبہ سندھ میں 72 ہزار سے زائد بچوں کی تعلیم میں خلل پڑا ہے۔‘‘

 برطانوی خیراتی ادارے ''اسلامک ریلیف‘‘ نے بھی کہا ہے کہ پاکستان میں کئی ہفتوں سے جاری طوفانی بارشوں نے ایک بار پھر ان کمیونٹیز کے مصائب میں اضافہ کر دیا ہے، جو پہلے ہی سن 2022 کے سیلاب سے متاثر تھیں اور ابھی تک بحالی کے عمل سے گزر رہی ہیں۔ اس فلاحی تنظیم کے پاکستان میں ڈائریکٹر آصف شیرازی کے مطابق ان کی تنظیم سیلاب سے متاثرہ لوگوں تک پہنچنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔

اس تناظر میں ابھی تک پاکستان کی وزارت برائے ماحولیاتی تبدیلی اور نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔

سن 2022 کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں پاکستان نے ابھی تک وسیع تر بنیادوں پر تعمیر نو کام شروع نہیں کیا کیونکہ حکومت کو اُن نو بلین ڈالر میں سے زیادہ تر فنڈز ابھی تک موصول نہیں ہوئے، جن کا وعدہ بین الاقوامی برادری نے گزشتہ سال جنیوا میں ہونے والی ایک ڈونرز کانفرنس میں کیا تھا۔

پاکستان میں آج بھی لاکھوں لوگ سیلابی پانی کی گزرگاہوں پر یا ان کے انتہائی قریب رہائش پذیر ہیں
پاکستان میں آج بھی لاکھوں لوگ سیلابی پانی کی گزرگاہوں پر یا ان کے انتہائی قریب رہائش پذیر ہیںتصویر: AP Photo/picture alliance

سابق وزیر آبپاشی محسن لغاری کا کہنا ہے، ''ہم نے سن 2022 کے سیلاب سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ لاکھوں لوگوں نے ندیوں کے انہی راستوں پر مٹی کی اینٹوں سے گھر بنائے ہیں، جو عموماً خشک رہتے ہیں۔‘‘

محسن لغاری نے کہا پاکستان میں رواں مون سون کے موسم میں سن 2022 کے مقابلے میں کم بارشوں کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ تاہم انہوں نے مزید بتایا، ''لیکن صوبہ پنجاب میں میرے اپنے ضلع ڈیرہ غازی خان کے کئی دیہات سیلابی پانی میں ڈوب گئے ہیں۔ سیلاب نے کسانوں کو متاثر کیا ہے اور میری اپنی زمین ایک بار پھر سیلابی پانی کی لپیٹ میں آ گئی ہے۔‘‘

ماہر تعمیرات وسیم احسان کے مطابق پاکستان اب بھی سن 2022 جیسی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کی بنیادی وجہ شہری کے ساتھ ساتھ دیہی علاقوں میں گھر اور یہاں تک کہ ہوٹلوں کی تعمیر کے دوران تعمیراتی قوانین کو نظر انداز کیا جانا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سن 2022 میں آنے والے سیلاب نے ملک کے شمال مغرب میں کافی نقصان پہنچایا کیونکہ لوگوں نے دریاؤں کا رخ موڑنے کے بعد کناروں پر گھر اور ہوٹل بنا رکھے تھے اور ''یہی وجہ تھی کہ دریائے سوات نے سن 2022 میں ایک ہوٹل ملیا میٹ ہو گیا تھا۔‘‘

پاکستان کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس سے منسلک سعد ایدھی اپنے ماضی کے تجربے کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ اگر پاکستان کو سن 2022 جیسے سیلاب کا سامنا کرنا پڑا، تو اسے شدید نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔

ا ا / م ا (اے پی)

پاکستان، سیلاب گزر گیا لیکن مشکلات نہ ٹلیں