پاکستان: پانی میں آرسینک کی زائد مقدار پر ماہرين کی تشويش
25 اگست 2017ملکی و بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں آج کل ہر جگہ اس خبر کے چرچے ہيں کہ پاکستان میں پچاس ملین افراد زیر زمین پانی میں آلودگی کی وجہ سے امکاناً ’آرسينک پوائزننگ‘ کا شکا ر ہوسکتے ہیں۔ معروف آبی ماہر عرفان چوہدری کا کہنا ہے کہ آرسينک کے ليول میں اضافہ پریشان کن ہے اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان ايک ڈاون اسٹریم ملک ہے، يعنی پانی اوپر سے نيچے کی طرف بہتا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’ہمارے ملک میں تازہ پانی کو محفوظ کرنے کے موثر قوانین نہیں ہیں جس کی وجہ سے انسانی فضلہ اور صنعتی فضلہ دریاوں اور نہروں میں ڈال دیا جاتا ہے۔ يہ زیر زمین جذب ہو کر پانی ميں مل جاتا ہے۔ پھر جب ہم اس زیرِ زمین پانی کو استعمال کرتے ہیں، تو یہ ہماری صحت کو متاثر کرتا ہے۔ لاہور میں حالت بہت بدتر ہے کیونکہ وہاں صنعتی فضلے کو ٹریٹ کيے بغیر ہی دريائے راوی میں پھینک دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ جب دریا خالی ہوتا ہے تو اس وقت بھی وہاں بڑے پیمانے پر کچرا اور صنعتی فضلہ پھينکا جاتا ہے اور جب بھارت کی طرف سے پانی چھوڑا جاتا ہے، تو یہ ساری گندگی زیرِ زمین چلی جاتی ہے۔‘‘
عرفان چوہدری کا کہنا ہے کہ بھارت اپ اسڑیم ملک ہے اور اسی ليے ہمارے دریاوں میں گندگی وہاں سے بھی آتی ہے۔ انہوں نے مزيد وضاحت کی، ’’بھارت اور پاکستان کو چاہیے کہ وہ اس حوالے سے آپس میں تعاون بڑھائیں اور اپ اسٹریم سے آنے والے پانی کو بھارت صاف رکھے يعنی اس میں کوئی گندگی نہ ہو۔ ملک کے اندر قوانین کو سخت کرنے کی بھی ضرورت ہے اور پانی کی آلودگی کو اسکولوں کے نصاب میں شامل کرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ اس حوالے سے لوگوں میں شعور اجاگر ہو۔‘‘
ايک اور آبی ماہر سہیل علی نقوی کے خیال میں بے ہنگم ترقیاتی پروجیکٹس بھی پینے کے پانی کی آلودگی کا سبب بن رہے ہیں۔’’آپ ديکھيں لاہور میں ہر طرف سڑکیں بن رہی ہیں۔ اس ہی وجہ سے بارش کا پانی صحیح طریقے سے زیر زمین نہيں جا پاتا۔ زیادہ تر پانی نالوں میں جاتا ہے اور پھر اس کے بعد نالوں سے زیر زمین جاتا ہے۔ تازہ پانی بڑے پیمانے پر ہونے والی تعمیرات کی وجہ سے زیر زمین نہیں جا پا رہا ہے۔ تو ہمارے ’اکونفر‘ (acquafer) اچھے طریقے سے چارج نہیں ہو رہے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’پانی اب صوبائی موضوع ہے۔ پنجاب میں اس سلسلے ميں حال ہی میں ایک قانون منظور ہوا ہے۔ اس کے علاوہ بلوچستان میں بھی قانون ہے لیکن بقیہ صوبوں میں ابھی اس ضمن ميں قوانین نہیں بنے۔ تو میرے خیال میں اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے۔‘‘
ماہرین کے خیال میں حکومت اس معاملے کو حل کرنے کی بھر پور کوششیں نہیں کر رہی ہے۔ گزشتہ چار برسوں میں حکومت نے کئی میگا پروجیکٹس شروع کيے لیکن اس اہم مسئلے پر کوئی بڑا پروجیکٹ شروع نہیں کیا گیا۔ پلاننگ کمیشن کے ایک عہدیدار نے اس بات کی تصدیق کی کہ حکومت نے گزشتہ چار برسوں میں پانی کو صاف کرنے یا اسے آلودگی سے بچانے کے ليے کوئی بڑا پروجیکٹ منظور نہیں
کیا۔
تاہم سیاست دانوں کا اصرار ہے کہ وہ اس مسئلے کو حل کرنے میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ معروف سیاست دان اور پاکستان پيپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر تاج حیدر نے اس حوالے سے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’ہم نے تھر میں کھارے پانی کو صاف کرنے کے پلانٹس لگائے ہیں۔ اس کے علاوہ ایسی اسکیمیں بھی شروع کی ہیں، جن کے تحت پانی میں فلورائیڈ اور آرسینک کی مقدار کو کم کیا جا سکے۔ اس طرح کے منصوبے اندرون سندھ کے کچھ علاقوں میں شروع کيے جا چکے ہيں اور اب کراچی میں بھی ایسے منصوبے شروع کيے جا رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے اعتراف کیا کہ سندھ میں اس مسئلے کو حل کرنے کے ليے کوئی قانون موجود نہیں ہے۔ حيدر کے بقول قانون بنانا آسان ہے لیکن اس پر عمل درآمد مشکل ہے۔ ان کا مزيد کہنا ہے کہ وزارتِ پبلک انجینرنگ و میونسپل کارپوریشینز کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو پینے کا صاف پانی فراہم کریں۔‘‘
پانی ميں آرسینک کی مقدار کے تعين کے ليے ایک سادہ سے ٹیسٹ ہوتا ہے۔ ایسے ٹیسٹ کے ذریعے لوگ باآسانی معلوم کر سکتے ہیں کہ کس علاقے میں آسینک کا لیول کتنا ہے۔