پاکستان: چھاتی کے سرطان کے خلاف طبی تحقیق میں اہم پیشرفت
13 نومبر 2022پاکستان میں حالیہ کچھ برسوں کے دوران چھاتی کے سرطان سے خواتین کی شرح اموات میں تیزی سے اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔ پنک پاکستان ٹرسٹ کی جانب سے جاری کردہ اعدادو شمار کے مطابق ہر برس تقریباﹰ 50 ہزار خواتین بریسٹ کینسر کے باعث موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔ یہ تعداد ایشیاء میں بریسٹ کینسر کا شکار ہونے والی خواتین کی سب سے زیادہ شرح ہے۔ ملک میں چھاتی کے سرطان کے سالانہ نوے ہزار کیسزرپورٹ ہو رہے ہیں جو اصل تعداد سے کافی کم ہیں کیونکہ سماجی قدغنوں کے باعث اکثر خواتین اپنا مرض چھپائے رکھتی ہیں۔
پاکستان میں بریسٹ کینسر کے راستے کی دیوار، پدر شاہی نظام بھی
ایف سی کالج یونیورسٹی لاہور کے نوجوان محققین نے ڈاکٹر محمد مصطفٰی کی سربراہی میں چھاتی کے سرطان کے کیسز کی وجوہات پر باقاعدہ لیبارٹری تحقیق کی ہے، جو پاکستان میں اپنی نوعیت کی پہلی تحقیق ہے۔
تحقیقات کی نوعیت
انٹرنیشل جرنل آف مالیکیولر سائنسز میں رواں ہفتے شائع ہونے والی اس تحقیق کی سربراہی ایف سی کالج یونیورسٹی لاہور کے کیم سکول آف لائف سائنسز سے وابستہ اسسٹنٹ پروفیسرڈاکٹر محمد مصطفیٰ نے کی ہے۔ یہ تحقیق اسی یونیورسٹی کی طالبہ تحریم فیا ض کی ایم فل اسٹڈی کا حصہ ہے۔ ڈاکٹر مصطفیٰ نے ڈوئچے ویلے سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ کینسر سے متعلق یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ جینیاتی مرض ہے حالانکہ تحقیق سے ثابت ہو چکا ہے کہ والدین سے بچوں میں کینسر کی منتقلی کے امکانات محض 15 فیصد ہوتے ہیں۔
وزیرستان کی خاتون چھاتی کے کینسر سے جنگ جیت گئی
دنیا بھر میں کینسر کے بڑھتے کیسز کی بڑی وجوہات غیر صحت مندانہ طرِز زندگی جیسے سگریٹ نوشی، الکوحل، جنک فوڈ کا زیادہ استعمال، ماحولیاتی عوامل اور جذباتی تناؤ کو سمجھا جاتا ہے۔ ڈاکٹر مصطفیٰ مزید بتاتے ہیں کہ جب کسی خاتون میں بریسٹ کینسر کی تشخیص ہوتی ہے تو وہ پہلے روزسے ہی شدید ذہنی تناؤ کا شکار ہو جاتی ہے۔ یہ ذہنی دباؤ علاج کے مختلف مراحل جیسے کیمو تھراپی، سرجری، ریڈیالوجی وغیرہ میں بتدریج بڑھتا رہتا ہے اور مریضہ کو اپنے روزمرہ کے کام سرانجام دینے میں بھی مشکلات پیش آتی ہیں۔
خون کے ٹیسٹ سے چھاتی کے سرطان کی تشخیص کا طریقہ
اس کے ساتھ ساتھ مریضوں میں نسوانیت کی پہچان چھاتیاں اور بالوں کا ختم ہو جانا، ہمہ وقت کا خوف، گھر والوں اور معاشرے کے منفی رویے اس نفسیاتی دباؤ کو مزید تقویت دیتے ہیں۔
ڈاکٹر مصطفیٰ کے مطابق ''کینسر کے دوران شدید ذہنی تناؤسے نمٹنے کے لیے مریضہ کا دماغ جو حکمت عملی اختیار کرتا ہے وہ اس کے ڈی این اے کا اپنے کچھ جینز پر کنٹرول کم کر دیتا ہے۔ یہ بے ربط جینز کینسر کے خلیوں کو دوسرے جسمانی اعضاء پر حملہ کرنے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔ یوں ٹیومر دیگر اعضاء تک پھیلنے لگتا ہے۔‘‘
شرح اموات سے متعلق معلومات
ڈاکٹر مصطفٰی کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ عام طور پر چھاتی کا سرطان اس وقت تک موت کا سبب نہیں بنتا جب تک ٹیومر صرف چھاتی تک محدود رہے۔ اس صورت میں مناسب اور بر وقت علاج سے خواتین جلد صحت یاب ہوجاتی ہیں۔ ان کے مطابق دیگر مسائل کے ساتھ موت کے امکانات اس وقت بڑھتے ہیں جب ٹیومر اپنی اصل جگہ چھوڑ کر ہڈیوں، پھیپھڑوں اور جسم کے دوسرے اعضاء تک پھیلنے لگتا ہے۔
پاکستان میں بڑھتا ہوا سرطان، ماہرین تشویش میں مبتلا
اسے سائنسی اصطلاح میں ''میٹاسٹیسیس‘‘کہا جاتا ہے، جو اس تحقیق کا مرکز تھی۔ ڈاکٹر مصطفٰی کے مطابق ان کی تحقیق میں بریسٹ کینسر کا شکار32 خواتین مریضوں کو شامل کیا گیا تھا، جو کیموتھیراپی اور سرجری کے مراحل سے گزر رہی تھیں۔ اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر مصطفٰی کا کہنا تھا، ''سب سے پہلے ان خواتین کا نفسیاتی اصولوں کے مطابق جائزہ لے کر ان کی ذہنی حالت کا ڈیٹا تیار کیا گیا، جس کے بعد ان کے خون کے نمونے لے کر لیبارٹری میں مالیکیولر تجزیے سے یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ جذباتی تناؤ مریض خواتین کے کینسر پر کس طرح اثر انداز ہوتا ہے۔ اس طرح ہمیں ذہنی اور جذباتی تناؤ سے ان کی روزمرہ زندگی میں ہونی والی تبدیلیوں اور مرض کے بگاڑ کے بارے میں اہم معلومات ملیں۔‘‘
تحقیق کے نتائج
ان محققین کے مطابق پاکستانی معاشرے میں چھاتی کے سرطان کے حوالے سے سماجی قدغنیں بہت زیادہ ہیں۔ مرض کی تشخیص کے بعد مریضہ پر نفسیاتی دباؤ بہت بڑھ جاتا ہے اور فیملی کی طرف سے اتنی سپورٹ نہیں ملتی، جس کی انہیں ضرورت ہوتی ہے۔ اسی لیے پاکستان میں بریسٹ کینسر سے اموات کی شرح بڑھ رہی ہے۔ محققین کے مطابق، ’’ہماری لیبارٹری میں کی گئی تحقیق میں باقاعدہ مالیکیولر تجزیے سے بریسٹ کینسر کا شکار خواتین کے خون میں کچھ ایسے حیاتیاتی پیمانے یا بائیولوجیکل مارکرز سامنے آئے، جن کی مدد سے کینسر کے مریضوں میں بڑھتے ذہنی وجذباتی تناؤ کے اثرات کی تشخیص کی جا سکے گی ۔
کم سِن لڑکیوں میں بریسٹ کینسر کے بڑھتے خطرات
ان معلومات کی روشنی میں طبی اور نفسیاتی طریقہ علاج کا متناسب استعمال کینسر کے پھیلنے یعنی میٹا سٹیسیس کی رفتار دھیمی کر کے بہتر نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
اموات میں کمی
ڈاکٹر مصطفٰی بتاتے ہیں کہ چھاتی کے سرطان کا شکار خواتین کی ذہنی صحت کا خیال رکھ کر ان کے زندہ رہنے کے امکانات کو بڑھایا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان میں آگاہی پھیلانے کی ضرورت ہے کہ علاج کے ساتھ ایک صحت مند ماحول مریض خواتین کے لئے کتنا اہم ہے۔ لا محالہ اس کے لیے گھر والوں اور معاشرے کو ان کے ساتھ تعاون کرنا ہوگا۔
محققین کے مطابق اس تحقیق کے نتائج سے پاکستان میں بریسٹ کینسر کے معالجین کو مرض کو بگڑنے سے روکنے میں مدد ملے گی اور وہ بہتر فیصلہ کر سکیں گے کہ مریضہ کو کس وقت، کس درجے کی جذباتی امداد اور نفسیاتی علاج کی ضرورت ہے۔
کیمیکلز کا روز مرہ استعمال اور خواتین میں بریسٹ کینسر کے خطرات
ڈاکٹر مصطفٰی کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ امرثابت ہو جانے کے بعد کہ چھاتی کے سرطان کے علاج کے دوران نفسیاتی اور ذہنی تناؤ کچھ جینز کی حرکیات کو بدلنے کا سبب بنتا ہے جو مرض کو مزید بگاڑتی ہیں۔ وہ پرامید ہیں کہ اس سے فارماکولجی میں نئے اہداف بھی سامنے آئیں گے۔ اب ایسی ادویات اور دماغی صحت کی بہتری کی حکمت عملیوں پر کام کیا جائے گا، جن سے ٹیومرکو میٹاسٹیسیس فیز تک پہنچنے سے روکا جا سکے گا، جو نا صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں بریسٹ کینسر سے خواتین کی اموات کا سبب بن رہا ہے۔