پاکستان کا بھی افغان سرحد پر فوجی بڑھانے کا اعلان
19 اکتوبر 2011پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس نے کہا ہے کہ افغانستان کی جانب سے پاکستانی علاقے پر حملے کسی صورت برداشت نہیں کیے جائیں گے۔ سرکاری ریڈیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں ترجمان نے کہا کہ سرحد پار سے حملے روکنے کی حکمت عملی کے تحت فرنٹیئر کور کے اہلکاروں کے ساتھ ساتھ باقاعدہ فوجی جوان بھی سرحد پر تعینات کر دیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سوات سے بھاگنے والے دہشت گردوں نے افغان صوبوں نورستان، کنڑ اور ننگرہار میں محفوظ ٹھکانے بنا لیے ہیں، جہاں سے وہ پاکستانی سرزمین پر خونریز حملے کر رہے ہیں۔
ادھر تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بظاہر پاکستان نے یہ اقدام دہشت گردی روکنے کے لیے اٹھایا ہے تاہم اس کے ذریعے امریکہ کو یہ پیغام بھی دے دیا گیا ہے کہ وہ شدت پسندوں کا پیچھا کرتے ہوئے پاکستانی علاقوں پر حملوں سے گریز کرے۔
تجزیہ نگار ایاز وزیر کا کہنا ہے، 'یہ بہت ہی کشیدہ صورتحال ہے۔ اس میں امریکہ چاہے گا، بلکہ خاص طور پر امریکی وزارت خارجہ کی کوشش ہے کہ پاکستان کے ساتھ روابط چلتے رہیں۔ یہ تعلقات سنبھل جائیں اور مثبت طرف چل پڑیں۔ نہ کہ جس طرف اب جا رہے ہیں، اس طرف مزید جائیں اور خدانخواستہ کشیدگی بڑھے۔‘
منگل کو پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے بھی امریکہ کو پاکستان کو دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا کہنے کے بجائے افغانستان پر توجہ مرکوز رکھنے کا مشورہ دیا تھا۔ سینیٹ اور قومی اسمبلی کی دفاعی امور کی کمیٹیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے جنرل کیانی کا کہنا تھا کہ امریکہ کو شمالی وزیرستان میں کارروائی سے قبل 10 مرتبہ سوچنا چاہیے۔
اسی دوران امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کے 20 اکتوبر کے مجوزہ دورہ پاکستان کو بھی انتہائی اہم قرار دیا جا رہے۔ تجزیہ نگار وائس ایئر مارشل (ر) شہزاد چوہدری کا کہنا ہے کہ پاکستان اس موقع کو امریکہ پر اپنا مؤقف واضح کرنے کے لیے استعمال کرے۔
انہوں نے کہا، 'جب ہلیری کلنٹن آتی ہیں تو یہ بہت اچھا موقع ہو گا کہ واضح طریقے سے شفاف بات کی جائے۔ ان کے گروپ کے ساتھ اس میں امریکی انتظامیہ کے تمام اہم شراکت دار ہیں اور ان کو بتایا جائے کہ پاکستان کی مجبوریاں کیا ہیں اور پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کیا تعاون کر سکتا ہے۔‘
دریں اثناء پاکستانی دفتر خارجہ کے حکام نے توقع ظاہر کی ہے کہ امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کا دورہ اسلام آباد دونوں ممالک کوعلاقائی اُمور پر ایک دوسرے کا نقطہ نظر سمجھنے اور غلط فہمیاں دور کرنے کا موقع فراہم کرے گا اور امریکہ کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی توقع ہے۔
رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد
ادارت: عصمت جبیں