پاکستان کا سعودی عرب کی طرف جھکاؤ کیوں؟
12 ستمبر 2018اسلام آباد کی حتیٰ الوسع کوشش ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ (IMF) اور ایشیائی ترقیاتی بینک سے مزید قرض نہ لے۔ تاحال پاکستان عالمی مالیاتی ادارے کا 6 ارب ڈالر کا مقروض ہے جس کے باعث مزید ادھار لینے کے لیے سخت ترین شرائط کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
پاکستان کی بد حال معیشت کی بنیاد پر پاکستان IMF سے صرف 2.85 ارب ڈالر قرض قدرے کم سخت شرائط پر حاصل کرسکتا ہے۔ پاکستان کو اقتصادی استحکام کے لیے 2018ء اور 2019ء کے لیے 12.5 ارب ڈالرکا سرمایہ درکار ہوگا جب کہ پہلے ہی اسلام آباد متعدد غیر ملکی قرائض میں دھنسا ہوا ہے۔
صورتحال کو مزید حقیقت پسندانہ طریقے سے واضح کرنے کے لیے یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ امریکا کی عدم مخالفت کی صورت میں بھی پاکستان کو IMF سے مالی معاونت کے لیے کئی کڑی ضمانتیں دینا ہوں گی۔ IMF میں نئی قانونی اصلاحات کے باعث پہلے سے مقروض ممالک کے لیے مزید مالی قرائض کا حصول تقریباً ناممکن بنادیا گیا ہے۔
اگر وزیراعظم عمران خان کڑی ترین شرائط پر آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض کے لیے تیار بھی ہوجائیں تو مزید 6.5 ارب ڈالر کے لیے پاکستان کو دیگر ذرائع سے رجوع کرنا ہی ہوگا۔ اکتوبر میں قرائض کی فراہمی کے باعث پاکستانی روپے کی قدر میں مزید کمی کو روکا جاسکتا ہے۔ فی الوقت پاکستان میں ایک امریکی ڈالر کی قدر 123 روپے تک جاپہنچی ہے۔ موجودہ تشویشناک اقتصادی صورتحال کا تقاضہ ہے کہ پاکستان اپنی تیل کی ضروریات اور دیگر درآمدات میں 15 فیصد تک کمی کرے اور فوری طور پر برآمدات میں اضافہ کے لیے اصلاحات اور اقدامات بھی کیے جائیں۔
آصف علی زرداری اور نواز شریف کے ادوار حکومت میں بجلی کی پیداوار میں کمی برآمدات کے لیے انتہائی مضر ثابت ہوئی۔ نتیجتاً درآمدات اور برآمدات کا توازن یکسر بگڑ گیا۔ مزید برآں غیر ملکی پاکستانیوں کی ترسیل زر میں بھی تقریباً 10 فیصد کمی واقع ہوئی۔ یوں نئی حکومت کے لیے نہ صرف مزید قرائض کی فراہمی ایک بڑا چیلنج ہے بلکہ آئی ایم ایف کی تجویز کردہ اصلاحات ملک کی ناگزیر ضرورت بن چکی ہیں چاہے عالمی مالیاتی ادارہ قرض نہ بھی فراہم کرے!
پاکستان گزشتہ دہائیوں میں پرانے قرضے چکانے کے لیے مزید ادھار حاصل کرتا رہا ہے جس کا نتیجہ قرضوں کا موجودہ حالیہ بوجھ ہے جو نیم ساکن معیشت کا سبب بنا ہے۔ عمران خان حکومت کو نہ صرف زر کا حصول سابقہ قرضوں کی ادائیگی کے لیے درکار ہے بلکہ ملک کی معیشت کو رواں کرنے کے لیے بھی یہ ضروری ہے۔ بیرونی قرضوں کی بروقت عدم ادائیگی عالمی مالیاتی نظام سے پاکستان کو خارج کرسکتی ہے۔ یوں بین الاقوامی اقتصادی نظام میں فعال رہنے کے لیے عالمی مالیاتی ادارے اور ورلڈ بینک دونوں کی تجویز کردہ اصلاحات پر عمل ناگزیر ہے ،ورنہ پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری ممکن نہ ہوگی کیونکہ سرمایہ کار متزلزل معیشت میں زر لگانے کا خطرہ مول لینا نہیں چاہیں گے۔
چین سے دو ارب ڈالر اور سعودی عرب سے چار ارب ڈالر قرض لینے سے پاکستان فوری طور پر نادہندہ ہونے سے محفوظ ہوجائے گا جبکہ ایک ارب ڈالر کا نرم شرائط پر اسلامی ترقیاتی بینک سے قرض دشواریوں میں کمی کا باعث ہوگا۔
نواز حکومت میں بھی چین سے آسان شرائط پر قرض حاصل کیا گیا تھا جبکہ سعودی عرب نے پاکستان کو ایک ارب ڈالر کی گرانٹ بھی دی تھی۔ ان دونوں ہمسایہ اور دوست ممالک سے قرض بنا طویل اور تفصیلی مذاکرات کے حاصل کرنا حالات کی سنگینی کا تقاضہ ہے ۔ ہمسایہ ملک ایران نہ صرف امریکا کی پابندیوں کا شکار ہے بلکہ FATF کی بلیک لسٹ میں بھی موجود ہے۔ ایران خود گوناگوں مسائل اور قدغنوں کا شکار ہے ایسے میں تہران حکومت کی طرف سے ایسی مالی امداد کی پیشکش نہ آئی ہے اور نہ ہی مستقبل قریب میں اس کے امکانات نظر آتے ہیں۔
ترکی اپنے اندرونی اور علاقائی مسائل خصوصاً شامی مہاجرین کی موجودگی کے باعث قرض کی فراہمی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
یوں سعودی عرب کے دورے کے دوران پاکستانی وفد جہاں طویل المدتی قلیل سودی قرض پر مذاکرات کرے گا وہاں دنیا کے امیر اسلامی ملک سے پاکستانی برآمدات میں اضافہ پر بھی بھرپور بحث ہونی چاہیے۔ پھل، سبزیاں اور دیگر زرعی اجناس کی سعودی عرب اور خلیجی ممالک کو برآمدات کی وسیع گنجائش موجود ہے۔ مزید برآں سعودی عرب میں تین لاکھ سے زائد پاکستانیوں کا گھر ہے جو تقریباً 8 ارب ڈالر سالانہ پاکستان کو زرمبادلہ فراہم کرتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان اور وزیر خزانہ اسد عمر کے لیے سعودی عرب میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنر مند افراد کے کوٹے میں اضافے کی کامیاب کوشش غیر ملکی زرمبادلہ کی ترسیل کو مزید تقویت دینے کا باعث ہوگی۔ حالیہ دوروں کے دوران اعلیٰ سطحی سعودی وفد نے پاکستان میں سرمایہ کاری کے بیشتر منصوبوں پر پیشرفت کا جائزہ لیا ہے۔ پس سعودی عرب، چین اور اسلامی ترقیاتی بینک سے قرضوں کا حصول پاکستان کی معاشی اور اقتصادی سالمیت کے لیے ناگزیر ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔