ویسے تو ان تینوں کا ہونا تعلیمی سسٹم کے لیے بنیادی اہمیت کا حامل ہے مگر جب سے دنیا کے بڑے بڑے ماہر تعلیم افراد نے اس نظام کو جانچنا اور سمجھنا سمجھانا شروع کیا ہے تو تعلیم کے بھی مختلف نظریات اور نظام متعارف ہوئے ہیں۔
یہ بات تو ہم سب جانتے ہیں کہ ہم انگریزوں اور انگریزی بولنے والوں سے ہمیشہ متاثر ہوتے ہیں اور ہر معاملے کی طرح تعلیم میں بھی ہم انگریزی میڈیم سکولوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ ہم سرکاری اور اردو میڈیم تعلیمی اداروں کا نصاب بھی ایسا ہی ترتیب دینے کی کوشش کرتے ہیں جو عالمی معیار کے مطابق ہو۔
پرانے نظام تعلیم کی بات کریں تو اس میں سے مرکزی اہمیت استاد کو حاصل تھی۔ کیونکہ اس وقت کے حساب سے استاد ہی وہ شخصیت ہوا کرتی تھی جو اپنے شاگرد کو علم دیتا تھا۔ باقاعدہ نصاب اور اداروں کا وجود بھی بہت کم ہوا کرتا تھا۔ اس لیے استاد اپنے تجربات اور نظریات اپنے شاگردوں کو دان کرتا۔ اسی وجہ سے استاد کا رتبہ اس قدر تھا کہ گرو دکشنا میں اگر استاد شاگرد سے اس کا سر بھی مانگتا تو شاگرد انکار نہیں کرتا تھا۔
اس کے بعد جب دنیا نئے دور میں داخل ہوئی تو باقاعدہ نصاب ترتیب دیا جانے لگا۔ اساتذہ اور طالب علموں کو اس نصاب کا پابند کیا جانے لگا۔ استاد کو اجرت پر رکھا جانے لگا مگر اس کی عزت اور مقام میں کوئی کمی نہ ہوئی۔
اسی لیے تو تعلیمی اداروں میں طالب علموں کو سزا دینے کے لیے مار پیٹ کو بھی برا خیال نہیں جاتا تھا۔ بلکہ ہمارے دیسی والدین تو سکول یا مدرسے میں داخلہ کرواتے وقت باقاعدہ کہہ کر آتے تھے کہ '' ہڈیاں ساڈیاں تے ماس تہاڈا" یعنی ہڈیاں ہماری اور ماس آپ کا۔
جس کا مطلب ہوتا کہ بچے کو ہر حال میں پڑھا لکھا کر بھیجیں اور اس دوران ہر طرح کے تشدد کی اجازت ہوتی۔ اساتذہ بھی بچوں کو چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر بھی اچھی طرح دھلائی کر کے پڑھاتے اور طالب علموں کو شکایت کی اجازت بھی نہ ہوتی۔
زمانہ مزید آگے گیا تو ہوتے ہوتے سمجھ آئی کہ دراصل استاد اور نصاب تو طالب علموں کو ایجوکیشن دینے کا ذریعہ ہیں۔ تعلیمی نظام کا مرکز تو طالب علم کو ہی ہونا چاہیے۔
آہستہ آہستہ اس نظریے کو ہر ملک اور قوم نے اپنایا اور پھر نصاب میں متنوع مضامین کو شامل کیا جانے لگا۔ طالب علم کو آزادی کے ساتھ اپنی دلچسپی کے علوم سیکھنے کا موقع دیا جانے لگا۔ اور استاد کو ایک سہولت کار کے طور پر سمجھا جانے لگا۔
اس نظام کے تحت " مار نہیں پیار " والا نعرہ پاکستان میں بھی متعارف ہوا۔ طالب علموں پر تشدد کو نا جائز قرار دیا گیا اور انہیں دوستانہ ماحول میں پڑھانے کی ورکشاپس بھی کروائی گئیں۔
جبکہ نجی تعلیمی اداروں میں اس نظام کے نتیجے میں جہاں جدید ترین ماحول فراہم کیا جانے لگا وہیں استاد کی عزت اور احترام پر بھی زد پڑی۔
ہمارے وطن عزیز میں کئی طرح کے تعلیمی نظام کام کر رہے ہیں۔ پبلک سیکٹر کے اداروں میں ابھی بھی اساتذہ خود کو اس نظام کا مرکز سمجھتے ہوئے طالب علموں سے احترام کی توقع رکھتے ہیں۔
جبکہ نجی اداروں میں جب انتظامیہ کے لوگ اساتذہ کو طالب علموں کے سامنے ہی ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہیں تو لا محالہ وہ اسٹوڈنٹ بھی ان اساتذہ کو صرف ادارے کے ملازم کے طور پر دیکھتے ہیں اور حفظ مراتب کا خیال رکھنا چھوڑ جاتے ہیں۔
یہ کلچر اب سرکاری اداروں میں بھی رائج ہوتا جا رہا ہے اور بہ طور ادب کی استاد، میں اس کی چشم دید گواہ بھی ہوں کہ اب طالب علموں میں اساتذہ کی وہ اہمیت نہیں رہی جو پرانے نظام میں ہوا کرتی تھی۔ اب بھی کچھ لوگ ایسے موجود ہیں جو اپنے بچوں کو اساتذہ کا احترام سکھاتے ہیں لیکن ساتھ ہی بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو اساتذہ کو اپنا ملازم سمجھتے ہیں۔
تعلیمی نظام کی اس کھچڑی میں آج کے دور کے اساتذہ اپنے عزت اور احترام کے لیے مسلسل کوشش میں ہیں جبکہ دوسری طرف حکومت اور ہائی اتھارٹیز نظام میں بہتری کے نام پر انہیں بے وقعت کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے۔ اب اس تگ و دو میں پاکستان کے اندر حال ہی میں تعلیمی اداروں کی نج کاری کی خاطر اساتذہ کے ساتھ بہت برا سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔
ایک طرف مدرسوں میں زیر تعلیم بچوں کا کوئی پرسان حال نہیں وہاں اساتذہ چھوٹے چھوٹے بچوں کو شدید تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ کئی جگہوں پر تو ان پر جنسی تشدد بھی ہوتا ہے ان کی پکڑ کا کوئی طریقہ کار نہیں۔
کچھ اداروں میں نصاب مرکز نظام چل رہا ہے جس میں استاد کے بغیر بھی طالب علم پڑھ پڑھا کر سندیں اور ڈگریاں حاصل کر لیتے ہیں۔
ہر گلی ہر سڑک ، ہر شہر، قصبے اور دیہات میں کھمبیوں کی طرح تعلیمی ادارے چل رہے ہیں ۔ جن کے نصاب، طرز تعلیم اور تربیت پر کسی طرح کا کوئی چیک نہیں ۔ اگر غور کیا جائے تو سارے کا سارا نظام ہی بچوں کو سدھارنے پر مشتمل ہے۔
بالکل ایسے ہی جیسے سرکس کے شیر کو کرسی پر بیٹھنا سکھا دیا جائے یا بندر کو جینٹلمین بننے کی ایکٹنگ آ جائے۔
مذکورہ بالا ہر سسٹم اپنی ہر صورت میں ناکامی سے دو چار ہے۔ ان اداروں سے نہ تو پیشہ ورانہ مہارت ملتی ہے اور نہ ہی کسی طرح کے سماجی اور اخلاقی اقدار کی تربیت طالب علموں میں راسخ کی جا رہی ہے۔ کئی کئی سال انگریزی اردو پر سر کھپائی کے بعد بھی بچوں کو کوئی زبان ڈھنگ سے نہیں آتی۔ رہی سہی کسر سوشل میڈیا کے راستے سکھائے جانے والے آداب اور تہذیب ہے جس کا کوئی توڑ آپ کے پاس نہیں۔
لہذا ماہرین تعلیم اور ملک کے کرتا دھرتا لوگوں کو اس مسئلے پر غور کرنا ہوگا کہ نصاب کو ثمر آور کس طرح بنایا جائے۔ روبوٹس کی بجائے باقاعدہ انسان کیسے پروان چڑھائے جائیں۔ مصنوعی ذہانت کے مقابل اصلی ذہانت کو کیسے چمکایا جائے اور نظام تعلیم کو بہتر کیسے کیا جائے کہ جدید دنیا کے ساتھ ہم بھی قدم ملا کر چلنے کے قابل ہو سکیں۔
مہربانی فرما کر اس التجا پر غور فرمائیں !
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔