پاکستان کو دباؤ میں لانے کی امریکی کوششیں
12 اکتوبر 2011امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا کی جانب سے پاکستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف لڑائی جاری رکھنے کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے سابق سیکرٹری خارجہ تنویر احمد خان نے کہا، ’’وہ بیان بہت اشتعال انگیز ہے، جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ہم کارروائیاں کر رہے ہیں۔ مختلف آوازیں ہیں جو واشنگٹن سے آتی ہیں۔ اس کے دو پہلو ہیں، ایک تو واشنگٹن میں بڑے شدید اختلافات ہیں، کوئی کچھ کہتا ہے اور کوئی کچھ۔‘‘
تنویر احمد خان کا کہنا تھا کہ اگر امریکہ چاہتا ہے کہ خطے میں دیرپا امن قائم ہو تو اسے پاکستان کے حوالے سے ایک واضح اور شفاف پالیسی اختیار کرنا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو نظر انداز کر کے خطے میں دیرپا امن کا قیام مشکل ہے۔
دوسری جانب امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کے حقانی نیٹ ورک سے مذاکرات کے دروازے بند نہ کیے جانے کے حوالے سے برطانوی خبر رساں ادارے کو دیے گئے انٹرویو پر تبصرہ کرتے ہو ئے دفاعی تجزیہ نگار ایئر مارشل (ر) مسعود اختر نے کہا کہ حقانی نیٹ ورک سے بات چیت امریکہ کی دیرینہ خواہش ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اس بات کو اچھی طرح سمجھتا ہے کہ حقانی نیٹ ورک سے بات کیے بغیر وہ کبھی بھی افغانستان میں حالات معمول پر نہیں لا سکتا۔
ایئر مارشل (ر) مسعود اختر کے مطابق امریکہ حقانی نیٹ ورک کے حوالے سے پاکستان کے ساتھ ڈبل گیم کھیل رہا ہے۔ امریکی عہدیداروں کے تازہ بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’ایک کہتا ہے کہ ہم بات کرنا چاہتے ہیں اور دوسرا کہتا ہے کہ ہمارے نیوکلیئر ہتھیار بڑھتے جا رہے ہیں، تو وہ صرف پاکستان پر اپنا دباؤ بڑھا رہے ہیں کہ پاکستان کس حد تک جا سکتا ہے۔ شمالی وزیرستان میں حقانی گروپ کے خلاف وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان بات بھی کرائے اور آپریشن کرتے ہوئے حقانی گروپ کو دباؤ میں بھی لے کر آئے۔‘‘
دریں اثناء پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے سرکاری طورپر امریکی وزراء کے ان بیانات پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا گیا۔
رپورٹ: شکوررحیم،اسلام آباد
ادارت: امتیاز احمد