پاکستان: ’کوئی واضح پالیسی نہیں، سرمایہ کار پریشان‘
10 اکتوبر 2018اس سارے معاملے کو لے کر نہ صرف پاکستان کی تاجر برادری شدید تشویش سے دوچار ہے بلکہ بڑے کاروباری ادارے، سرمایہ کار، درآمدکنندگان کو بھی خدشات لاحق ہیں۔ روپے کی قدر میں کمی اور ڈالر کی قیمت میں اضافے کو عام طور پر مہنگائی کا اشارہ قرار دیا جاتا ہے۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر اور زرعی ملک میں، جہاں صنعتی پیداوار کم اور انڈسٹری سیکٹر کا انحصار درآمدات پر ہے، وہاں یہ بات یقینی ہے کہ جب ڈالر کی قیمت بڑھتی ہے تو خام مال یا درآمدی اشیا کے دام بھی بڑھ جاتے ہیں، جس سے صنعتوں کی پیداواری لاگت بڑھ جاتی ہے اور صنعت کار خود نقصان سے بچنے کے لیے سارا بوجھ صارفین تک منتقل کر دیتے ہیں۔
ایوان صنعت و تجارت کراچی کے سابق صدر اور درآمدکنندہ ہارون اگر نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ’’ڈالر مہنگا ہونے سے درآمدی مال کی لاگت بڑھ جائے گی، پہلے جو چیز سو یا ایک سو چوبیس ڈالر میں درآمد ہو رہی تھی اب وہ ایک سو پینتیس یا چھتیس ڈالر میں آئے گی، ظاہر ہے ہم مفت میں تو کام نہیں کریں گے، منافع کے لئے ہم بھی اپنی اشیا کے دام بڑھانے پر مجبور ہوجاتے ہیں، پہلے ہی بجلی اور گیس کے نرخ اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ صنعت چلانا مشکل ہوگیا ہے۔‘‘
پاکستان میں شرح تبادلہ کا نظام آزاد مارکیٹ کے تحت کام کرتا ہے، البتہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان وقتاﹰ فوقتاﹰ مارکیٹ کا جائزہ لیتا رہتا ہے۔ منگل کو پاکستان کے بازار مبادلہ میں پہلی بار ایک امریکی ڈالر کی قیمت تیرہ روپے اضافے سے ایک سو سینتیس روپے پر دیکھی گئی جبکہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر ایک سو اڑتیس تک پہنچ گیا۔
اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈالر کی قیمت میں اچانک اضافے کی اہم ترین وجہ حکومت کی جانب سے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے قرض لینے کا اعلان ہے، جس کے فوری بعد پاکستان کی کرنسی کی قدر ڈالر کے مقابلے میں تقریباﹰ آٹھ سے دس فیصد کم ہوئی۔
ماہر معاشیات ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ’’حکومت نے الیکشن سے پہلے جو وعدے کئے تھے، وہ انہیں پورا نہیں کر پا رہی، صرف گاڑیاں اور بھینسیں بیچنے سے ملک کی معیشت بہتر نہیں ہوگی، بجلی، گیس اور ڈالر کی قیمت میں اضافے سے بھی بہتری کی کوئی خاص امید نہیں، بلکہ حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ وہ لوٹی ہوئی دولت واپس پاکستان لائے گی، اس پر عمل کرے۔‘‘
روپے کی قدر میں کمی، غیر ملکی سرمایہ کاری کا نادر موقع
وزیر خزانہ اسد عمر نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ حکومت نے عالمی مالیاتی فنڈ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان کو بریفنگ دی گئی ہے۔ وزیراعظم نے فوری طور پر آئی ایم ایف سے مذاکرات کی منظوری دی ہے، اسد عمر کا کہنا تھا کہ حکومت مالی ضروریات کے پیش نظر آئی ایم ایف سے چھ سے سات ارب امریکی ڈالر کا قرض مانگے گی، اس کے علاوہ سعودی عرب، چین، اسلامی ترقیاتی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور سمندر پار پاکستانیوں کے لیے اوورسیز بانڈز کا اجرا بھی زیر غور ہے۔
وزیر خزانہ کے اس بیان کا پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں فوری اور مثبت ردعمل سامنے آیا۔ کاروبار کے آغاز پر ہی ایک ہزار پوائنٹس کا اضافہ ہوا اور ہنڈریڈ انڈیکس ایک سال بعد انتالیس ہزار پوائنٹس کی سطح پر دیکھا گیا۔
پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے ڈائریکٹر عابد علی حبیب کہتے ہیں کہ ’’نئی حکومت کی جانب سے کسی واضح پالیسی کی عدم موجودگی کے سبب سرمایہ کار پریشانی سے دو چار تھے لیکن وزیر خزانہ کی جانب سے آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے اعلان پر سرمایہ کاروں کی بے چینی میں کچھ کمی آئی، جس سے مارکیٹ میں شیئرز کی خریداری سامنے آئی۔ تاہم بعض شیئرز کی قیمتیں نچلی ترین سطح پر ہیں، جبکہ ڈالر کی قدر بھی بڑھ رہی ہے، اس صورتحال سے غیرملکی سرمایہ کار تذبذب کا شکار ہیں اور وہ مارکیٹ سے پیسہ نکالنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔‘‘
پاکستان کی معاشی صورتحال اس قدر بگاڑ کا شکار ہے کہ درآمدی ادائیگیوں کے لئے ماہانہ تین سے چار ارب ڈالر زرمبادلہ خرچ ہو رہا ہے، جبکہ جاری کھاتوں کا خسارہ اٹھارہ سے بیس ارب ڈالر سالانہ کے لگ بھگ ہے۔ آئی ایم ایف کو پچھلے قرضوں کی واپسی اور اس پر سود کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ تجارتی ادائیگیاں حکومت کے لئے بڑے چینلج بنے ہوئے ہیں۔ اس صورتحال میں حکومت کے پاس فوری طور پر کوئی اور آپشن نظر نہیں آتا کہ وہ عالمی مالیاتی فنڈ کے پاس نہ جائے۔
وزیراعظم پاکستان عمران خان نے بدھ کو اسلا م آباد میں ایک تقریب سے خطاب میں پاکستان کی مالی اور معاشی مشکلات کا ایک بار پھر ذکر کرتے ہوئے قوم سے کہا کہ وہ تسلی رکھے، وہ ملک کو مشکلات سے نکالیں گے۔ لیکن وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے بتایا کہ آئی ایم ایف سے قرض لینے کا فیصلہ کرنا مجبوری تھی، اس سے قبل سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین سے قرض کی بات کی گئی لیکن جن شرائط پر یہ ممالک قرض دے رہے تھے وہ منظور کرنا حکومت کے لئے ممکن نہیں تھا۔